Wednesday 30 September 2015

Taleemi bedaari

تعلیمی بیداری

حالیہ کچھ برسوں میں مسلمانوں میں کئی اچھی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔  اب یہ صرف مسائل کا رونا نہیں روتے بلکہ وسائل کی بھی بات کرتے ہیں، صرف کمزوریوں کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ صلاحیتوں کی بھی شناخت کرتے ہیں، صرف تعداد کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ استعداد پر بھی نظر رکھتے ہیں اور تعصب سے گھبرا کر میدان نہیں چھوڑتے بلکہ ڈٹ کرمقابلہ کرتے ہیں اور دستیاب مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
    اس کا بہت اچھا احساس گزشتہ دنوں ایک تعلیمی جلسے میں شریک ہونے کے بعد ہوا۔ یہ جلسہ ایک بہت ہی چھوٹی کمیونٹی کا تھا لیکن اس کے عزائم اتنے بلند نظر آئے کہ دل سے یہ آواز نکلی کہ کاش! یہی عزم و حوصلہ ہم سب کا ہوجائے تو کوئی سچر کمیٹی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کو دلتوں سے بدتر بتاکر ہمیں ہماری حیثیت نہیں جتائے گی۔ جلگاؤں سے تعلق رکھنےوالی یہ ایک بہت ہی چھوٹی سی کمیونٹی ہے جوخود کو کاغذی کہلواتے ہیں۔ نصف صدی قبل ان کے اجداد جو معاشی طور پر نہایت پسماندہ تھے، اپنی بستی میں کاغذ سازی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس کام میں پورا گھر مصروف رہتا تھا لیکن ملوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کی آمد کے بعد جب ان کا کاروبار متاثر ہونے لگا تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے، زیادہ تر درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تو کچھ نے ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی اور بعض نے تجارت کی راہ اختیار کی۔اس طرح بیشترکو جلگاؤں سے ہجرت کرکے ممبئی، کلیان، بھیونڈی،  مالیگاؤں اور دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔کچھ ہی دنوں میں اس طبقے کے بیشتر افراد پسماندگی کے دلدل سے باہر آئے اور خود کفیل ہوگئے۔ 
    ۵؍ سال قبل ان میں سے کچھ ذہین اور اچھی سوچ رکھنے والے افراد نےایک میٹنگ کی اوراس بات پر غور و خوض کیا کہ اپنی کمیونٹی کے باقی ماندہ افراد کو پسماندگی کے دلدل سے کس طرح باہر نکالا جائے؟ یہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیونٹی میں تعلیمی بیداری بہت ضروری ہے۔  یہ صرف ملے، بیٹھے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچے بلکہ اس کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل آوری بھی کی۔ گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ اجلاس ، ان کا پانچواں سالانہ جلسہ تھا۔  اس تقریب میں نہ صرف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلبہ کو انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کی مالی اعانت بھی کرتے ہیں۔ ذمہ داران کے مطابق اس کی وجہ سے بہت سارے ایسے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ چل پڑا ہے جو تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
     یہ سالانہ جلسے کا مقام ہر سال تبدیل کرتے ہیں تاکہ اس میں  ہر شہر میں رہنےوالے کاغذی خاندان شریک ہوسکیں۔یہ صرف تعلیمی تقریب نہیں ہوتی بلکہ ان کیلئے مل بیٹھنے کا ایک  بہانہ بھی ہوتا ہے۔حرارت باقی رکھنے کیلئے اس طرح کی کوششیں ہوتی رہنی چاہئیں ۔

No comments:

Post a Comment