Wednesday 30 September 2015

bsu travel

بس کا سفر، پریشانی ہی پریشانی

سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
        ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے  پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ تر مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ اے سی اور سیمی لکژری بسیںقدرے غنیمت ہیں۔ 
          ایسا لگتا ہے کہ بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافربھٹکتے رہتےہیںلیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے  وہ یہی ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔ ریاست کے کئی بس ڈپو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوںکے سبب خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین  روزانہ ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے  ہوکر جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو ..... پولیس اسٹیشن تو ہر ڈپو میں ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی آنکھیں ہمیشہ بند ہی رہتی ہیں۔
          ایسا دراصل اسلئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے لہٰذا سرکار ان سے  زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری  اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے سرکار پر دباؤ ڈالے جبکہ جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔  بیسٹ بسیں اس کی واضح مثال ہیں۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

No comments:

Post a Comment