Wednesday 30 September 2015

Bihar ke musalman aur election

بہار کے مسلمان فرقہ پرستوں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

  بہار میں الیکشن کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی کا خیمہ پوری طرح سے سرگرم ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس کے ساتھ اس کے اراکین بہار کے چپے چپے پر پھیل گئے ہیں اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  بی جے پی کے سامنے دو باتیں نہایت واضح ہیں۔ اس الیکشن سے ایک جانب جہاں اسے دہلی کی ہزیمت کا داغ مٹانا ہے وہیں بہار اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھا کر راجیہ سبھا میں بھی اپنی پوزیشن بہترکرنی ہے تاکہ وہ من مانی کرنے کے قابل ہوسکے۔ ایسے میں بہار کے مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ   اس وقت  وہ فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

قطب الدین شاہد

 بہار کاانتخابی منظر نامہ ابھی پوری طرح صاف نہیں ہوا ہے۔ وہاں کے سیاسی حالات پل پل بدل رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ قطعی نہیں نکالا جاسکتا کہ آنےوالے اسمبلی الیکشن میں بھی وہ تمام ووٹ انہی جماعتوں یا اتحادوں کو ملیں گے۔آرجے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد سے  سیکولر حلقوں میں ایک آس بندھی تھی کہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی سے پٹخنی کھانے کے بعد  ایک بار پھر رعونت کا مظاہرہ کرنےوالی بی جے پی کو بہار میں بھی دھوبی پچھاڑ کا سامنا ہوگا۔ اعداد وشمار ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اتحاد کیلئے   این ڈی اے کو روند کر آگے بڑھنا کچھ مشکل نہیں ہوگا لیکن چھٹی حس کہتی ہے کہ معاملہ اتناآسان نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کے ساتھ ،کچھ غیرمرئی قوتیں بھی زعفرانی محاذ کی کامیابی کیلئے پورا زور لگا رہی ہیں۔ کچھ بی جے پی کی حمایت کرکے اسے فائدہ پہنچا رہی ہیںتو کچھ مخالفت کا ڈراما رچ کر اسے اقتدار تک پہنچانے کا سامان پیدا کررہی ہیں۔
     دراصل بی جے پی اوراس حکومت سے فائدہ اٹھانے والے قومی اور  بین الاقوامی صنعت کاروں کی نظریں بہار پر اس لئے مرکوز ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف ریاستی اسمبلی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر راجیہ سبھا میں نشستوں کی تعداد پر بھی پڑے گا۔ متازع تحویل اراضی بل، جی ایس ٹی بل اور انشورنس بل کو قانونی شکل اختیار کرنے میں راجیہ سبھا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی  اور اس کے حامی جی جان لگارہے ہیں کہ نہ صرف بہاراسمبلی پر قبضہ ہو جائے بلکہ راجیہ سبھا میں اس کی نشستوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے۔
    اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ۲۴۵؍ رکنی ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس  ۴۸؍ سیٹیں ہیں  جبکہ ۷؍ پارٹیوں پر مشتمل این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی صرف ۶۴؍ تک ہی پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے پاس ۶۸؍ اور جنتاپریوار کے پاس راجیہ سبھا کی ۳۰؍ سیٹیں ہیں۔  بی جے پی چاہتی ہے کہ  اپنی سرکار (مودی حکومت) کی میقات کے دوران ہی کسی طرح اس کی اور اس کی حامی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰؍  پار کرجائے تاکہ جے للتا ، ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ کو کسی بہانے راضی کر کے وہ کچھ اہم بلوں کو اپنی مرضی کے مطابق پاس کرواسکے۔  اس کیلئے بی جے پی کے تھنک ٹینک صرف بہار پر ہی نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں اوراس طرح وہ راجیہ سبھا میںمضبوطی کیلئےابھی سے کوشاں ہیں۔ ان کا منصوبہ قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہے۔۲۰۱۸ءتک اترپردیش، مغربی بنگال، گجرات، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی چھوٹی بڑی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔اس درمیان مختلف ریاستوں میں کم و بیش راجیہ سبھا کی۱۵۳؍ نشستیں خالی ہوںگی ، جن پر بی  جے پی کے تھنک ٹینک  کی نظریں مرکوز ہیں۔  آئندہ سال بہار میں راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں جن کاانتخاب مجوزہ اسمبلی الیکشن  میں کامیاب۲۴۳؍ اراکین کریںگے۔ ۲۰۱۶ء میںسبکدوش ہونے والے  ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ خیال رہے کہ بہار  سے منتخب ہونے والے  راجیہ سبھا اراکین کی کل تعداد ۱۶؍ ہےجبکہ اترپردیش  سے ۳۱؍ اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات  ۲۰۱۷ء میں ہوںگے۔  
     بہار اور اس کے بعد ہونےوالے مختلف ریاستوں کے انتخابات کیلئے بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں بہت سنجیدہ  ہیں۔ بہار کے تئیں بی جے پی کے حوصلے اس لئے بھی بہت زیادہ بلند ہیں کہ لوک انتخابات میں اسے وہاں توقع سے زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ لوک سبھا کی کل۴۰؍ نشستوں میں این ڈی اے نے ۳۱؍ سیٹیں حاصل کرلی تھیں جن میں سے ۲۲؍ سیٹیں تنہا بی جے پی کی تھیں۔  بی جے پی کو سب سے زیادہ یعنی ۲۹ء۸۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن تب اور اب کے حالات میں کافی فرق آچکا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن سے ، حالیہ لوک سبھا الیکشن تک اور لوک سبھا الیکشن سے ابھی تک، بہار کے سیاسی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا  ہے، ان میں مزید تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن میں جہاں  بی جے پی اور جے ڈی یو کااتحاد تھا، وہیں  آر جے ڈی کے ساتھ ایل جے پی تھی لیکن لوک سبھا الیکشن میں مساوات یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ایل جے پی نے بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا تو آر جے ڈی اور جے ڈی یو تنہا انتخابی دنگل میں اُتری تھیں۔
     اب یہ بات بھی پرانی ہوچکی ہے۔  بہار کے رائے دہندگان کے سامنے اب نیا اتحاد اور نئی مساوات ہے۔ ایک جانب جہاں کانگریس، آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا عظیم اتحاد سامنے آیا ہے، وہیں اس اتحاد سے جیتن رام مانجھی اور پپو یادو جیسے  ذات برادری پر اثر و رسوخ رکھنےوالے کچھ لیڈروں کااخراج بھی عمل میں آیا ہے۔این سی پی اور سماجوادی پارٹی  کے مؤقف ہنوز واضح نہیں ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے ان دونوں جماعتوں کا بہار کی سیاست میں کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو وہاں کےعوام اس کی اوقات بتا چکے ہیں جب اس کے ۱۴۶؍ امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی اور تمام کے تمام کی ضمانت ضبط ہوئی تھی۔ البتہ مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کے انتخابی میدان میں اتر جانے کے اشاروں سے سیکولر حلقوں میں تھوڑی تشویش ضرور پائی جارہی  ہے۔   ویسے اس بات کا امکان  ذراکم ہی ہے کہ بہار میں اسدالدین اویسی کی پارٹی کی دال گل سکے گی۔  یوپی اور بہار  معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن وہاں کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں   سیکولر پارٹیوں کی انا پرستی کی وجہ سے بھلے ہی این ڈی اے کو زیادہ سیٹیں مل گئی ہوں لیکن اُس ناسازگار ماحول میں بھی کشن گنج کے مسلم رائے دہندگان  سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی اور جے ڈی یو کے امیدوار اخترالایمان کے درمیان مفاہمت کرانے میں کامیاب رہے تھے۔     چونکہ اس بار مقابلہ بہت سخت ہوگا لہٰذا اس بات کے خدشات پائے جارہے ہیں کہ ووٹوں کے تھوڑاسا اِدھر اُدھر ہونے سے کئی سیٹیں دوسرے خیمےمیں جا گریں گی۔ بی جے پی کی نظریں اسی پر ہیں کہ وہ کچھ جماعتوں کو اس بڑے اتحاد سے الگ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس کیلئے آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی کسی کو سا تھ رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کانگریس کا ساتھ مل جانے سے ان میں بھی کانگریسیت آگئی ہے۔ 
       بی جے پی کا  رام ولاس پاسوان کی  لوک جن شکتی پارٹی، اوپندر کشواہا کی  راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام پارٹی سے ابھی تک انتخابی سمجھوتہ نہیں ہوسکا ہے لیکن  بی جے پی اور آر ایس ایس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے  یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تاخیر سے ہی سہی، یہ تمام جماعتیں مل کر ہی انتخاب لڑیں گی اور بی جے پی کی شرطوں پر ہی لڑیںگی۔  بی جے پی انہیں زیادہ سیٹیں نہیں دے گی کیونکہ بی جے پی  کا مقصد صرف بہار اسمبلی پر بھگوا لہرانا نہیں ہے بلکہ اپنے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہے تاکہ وہ راجیہ سبھا میں اپنی تعداد بڑھا سکے۔ اس کے بدلے بی جے پی انہیں ’کچھ اور‘ دے سکتی ہے۔ اس ’کچھ‘ میں مرکزاور ریاست میں حکومت سازی کی صورت میں وزیروں کی اضافی تعداد بھی ہوسکتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس نے ریاست کو مختلف خطوں میں تقسیم کرکے ان علاقوں کے انچارج نامزد کردیئے ہیں اورایک ایک بوتھ پر ذمہ دار ان تعینات کردیئے گئے ہیں جو دن رات ایک کئے ہوئےہیں۔ اسی طرح  وزیراعظم مودی بھی  دبئی سے سیدھا بہار پہنچ کر یہی ثابت کرتے ہیں۔ 
     ان حالات میں بہار کے ۱۷؍ فیصد مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حسب سابق سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ ان کی جانب پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ بہار کے مسلمان اس وقت  فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کے غرور کو خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں۔  یہ بات درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی کامیابی کیلئے جتنے کوشاں مسلمان ہوتے ہیں، اتنے دوسرے نہیں ہوتے اور یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اس کا صلہ انہیں اتنا نہیں ملتا، جتنا کہ ملنا چاہئے لیکن  اسی کے ساتھ یہ  بات بھی ہمیں تسلیم کرکے چلنا چاہئے کہ جمہوری ملک میں ہم بذات خود اپنی طاقت پر کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا سیکولر ازم کو نعمت یا مجبوری سمجھ کر  اسے  طاقت بخشنے کی کوشش بہرحال کرنی چاہئے۔ ایم آئی ایم کی نیت پر ہم شک نہیں کرسکتے اور اس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے  کی کوشش کو ناحق بھی نہیں کہہ سکتے لیکن وقت کا تقاضا تو یہی کہ اسدالدین اویسی بہار اور یوپی  میں فی الحال انتخابی قسمت آزمائی سے قبل اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں  اور جب انتخابی میدان میں اتریں تو دیگر سیکولر پارٹیوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اتریں تاکہ اسمبلی میں وہ اُن افراد کی نمائندگی کرسکیں جنہوں نے انہیں اپنا قیمتی ووٹ دیا ہے اور ان کی حمایت کی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی اپنی پارٹی کے حق میں اچھا ہوگا بلکہ مسلم رائے دہندگان کیلئے بھی اچھا ہوگا اور  بی جے پی کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بننے پر سیکولر حلقوں سے مبارکباد کے مستحق بھی قرار پائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انتخابی عمل میں کود نے سےمتعلق تذبذب کا شکار ہوں تو یوپی کی ۲؍ مسلم جماعتیں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اور مولانا عامر رشادی کی مسلم کونسل کا حشر دیکھ لیں۔
    بہار کاانتخاب اگر دو طرفہ ہوتا ہے یعنی آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس  اتحاد کا مقابلہ  بی جے پی ، ایل جے پی ، آر ایل ایس پی اور ہندوستانی عوام کے اتحاد سے ہوتا ہے تو بلاشبہ سیکولر محاذ کا پلڑا بھاری رہے گا لیکن مقابلہ پھر بھی سخت ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں ان دونوں محاذ کو بالترتیب ۴۲؍ اور ۴۰؍ فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ بلاشبہ اس دوران  بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے لیکن اس کے طویل مدتی منصوبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیکولر طبقے بالخصوص مسلمانوں کو ہمہ وقت  بیدار،ہوشیار اور خبر دار رہناہوگا کیونکہ مقابلہ خرگوش اور کچھوے کا نہیں بلکہ تقریباً برابری کا ہے۔

بی جے پی کی طویل مدتی منصوبہ بندی

      زعفرانی محاذ کی خواہش  راجیہ سبھا میں اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانی ہے، اس لئے اس کا ریاستوں پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ آئندہ تین برسوں میںاترپردیش، مغربی بنگال، گجرات،تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔ ان تمام ریاستوں کے انتخابات پر بی جے پی  اوراس کے حامیوں کی نظریں مرکوز ہیں۔
کب  اورکہاں اسمبلی انتخابات ہوںگے؟
۲۰۱۵ء
بہار
۲۰۱۶ء
آسام، کیرالا، پانڈیچری، تمل ناڈو اور مغربی بنگال
۲۰۱۷ء
 گوا، گجرات، ہماچل پردیش، منی پور، پنجاب، اترپردیش اور اتر اکھنڈ
۲۰۱۸ء
چھتیس گڑھ، کرناٹک، ایم پی، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان اور تریپورہ

     آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۷۵؍ نشستیں خالی ہورہی ہیں، جن میں بہار بھی شامل ہے۔  ۲۰۱۷ء میں صرف ۱۰؍ نشستیں خالی ہوںگی لیکن اس کے بعد یعنی ۲۰۱۸ء میں ایک بار پھر ۶۸؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں، کہاں کتنی سیٹیں خالی ہورہی ہیں۔
بہار
    بہار میں آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں اورسبکدوش ہونےوالے ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ بی جے پی کی کوشش کم از کم تین سیٹوں  پر قبضہ کرنے کی ہے۔
 اترپردیش
     یہاں  ۲۰۱۶ء میں راجیہ سبھا کی ۱۱؍ سیٹیں خالی ہوںگی لیکن یہاں بی جے پی کا خواب پورا نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ اسمبلی میں اس کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ کوئی تیر مار سکے۔اس میں بہت مشکل سے بی جے پی ایک سیٹ لے سکے گی جبکہ باقی ماندہ سیٹوں پر ایس پی اور  بی ایس پی ہی قابض ہوںگی۔
مہاراشٹر
    آئندہ سال یہاں  ۶؍ سیٹوں پرالیکشن ہوگا۔ فی الحال ان میں سے کانگریس اوراین سی پی کی ۲۔۲؍ سیٹیں ہیں جبکہ بی جے پی اور شیوسینا کی ایک ایک۔  بی جے پی کا یہاں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ اسے مزید ۳؍سیٹیں مل سکتی ہیں۔
مدھیہ پردیش
    یہاں ۳؍ سیٹیں خالی ہوں گی۔ ان میں سے ایک پرکانگریس اور ۲؍ پر بی جے پی قابض ہے۔ آئندہ بھی صورتحال کم و بیش ویسی  رہنے کی امید ہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی تینوںسیٹیں جیت لے۔
    راجستھان
    آئندہ سال یہاں ۴؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا جن میں سے چاروں بی جے پی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ فی الحال ان میں سے ایک پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ تین سیٹیں کانگریس کی ہیں۔
      علاوہ ازیں ان تین برسوں میں، تمل ناڈو ، پنجاب، مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردیش میں بھی راجیہ سبھاکی سیٹیں خالی ہوںگی لیکن تنہا بی جے پی کیلئے اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے۔ یوپی، بہار اور بنگال میں اس کی کارکردگی  بہت اچھی رہی تو بھی وہ ۷۰؍ نشستوں  سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ویسے بی جے پی کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو بھی اس کی من مانی کافی بڑھ جائے گی

No comments:

Post a Comment