Wednesday 30 September 2015

Hamare mamlaat

ہم اور ہمارے معاملات

ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر پھیلا ہے اوراپنی بساط بھر اس دعوے کی تشہیر بھی کرتےہیں لیکن کبھی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس درمیان پل کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا۔  بلاشبہ ہمارا دعویٰ درست ہے لیکن آج ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اس دعوے پر کوئی بھلا کیوں کر یقین کرے گا؟
    ان دنوںفیس بک اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات ایک دوسرے کو خوب فارورڈ  کئے جارہے ہیں کہ اسلام صرف اور صرف اپنے اخلاق کی بدولت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر چھا گیا تھا اور آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بڑی تیز سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔اس کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ ان پیغامات میں اس بات کا رونا بھی رویا جاتا ہے کہ اسلام کی ان اعلیٰ درجے کی تعلیمات کے باوجود اسلام کی غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے۔ اس کیلئے ہم صہیونی اور برہمنی نظام کو ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔
    بلاشبہ کچھ حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن یہاںہمیں تھوڑی دیر ٹھہر کرسوچنا چاہئے کہ کیا ہم مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں آج کہی  جارہی ہیں، وہ پوری کی پوری غلط اورمسترد کردیئے جانے کے لائق ہیں یا یہ کہ اس میں کچھ ہماری اپنی غلطی بھی ہے۔
    ہمارا کوئی غیرمسلم پڑوسی جو ہمیں روزانہ مسجد آتے جاتے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی دھڑلے سے کھڑکی کے ذریعہ سڑک پر کچرا پھینکتے ہوئے بھی روزانہ مشاہدہ کرتا ہے، وہ کیوں کر سمجھے گا کہ اسلام میں صاف صفائی کو نصف ایمان  کا درجہ حاصل ہے ۔
    ڈاڑھی ٹوپی اور کرتے پاجامے میں دیکھ کر کوئی غیر مسلم ہمارے اخلاق سے کیوں کر متاثر ہوگا ، اگروہ ہمیں کسی کو گالیاں دیتے ہوئے اور بات بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھے گا۔
    کاروباری اور لین دین کے معاملے میں ہماری بے ایمانی اور بد عہدی کو دیکھنے کے بعد کسی کو اس بات پر کیوں کر یقین آئے گا کہ اسلام میں ایمانداری اور ایفائے عہد کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
    مسلکی ، نسلی اور علاقائی  مسائل پر ہمیں آپس میں دست و گریباں دیکھنے اور ایک دوسرے کے تئیں بلا تکلف نفرت کے اظہار کے بعد کوئی یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اسلام میں اتحاد کی بڑی اہمیت ہے  اور برادران وطن کے پاس  یہ پیغام کیسے پہنچے گا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے کسی بھی ایک اعضا کو تکلیف پہنچے تو اس شدت کو پورا جسم محسوس کرے۔
    صورتحال یہ ہے ہم معاملات میں بہت ناقص  ہیں بلکہ اس کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے ۔ ظاہری عبادات کے تو قائل ہیں لیکن معاملات میں شفافیت کے نہیں۔ ایسے میں ہماری شبیہ کیوں کر بہتر ہوسکے گی؟

No comments:

Post a Comment