Wednesday 30 September 2015

Teachers day and gift

یوم ِاساتذہ اور تحائف

 دو دن قبل وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں ہمیں ایک میسیج موصول ہوا جس میں ٹیچرس ڈے کے موقع پر اساتذہ کے ذریعہ طلبہ سے تحائف قبول کرنے پر اعتراض ظاہر کیا گیا ہے۔ مضمون فکر انگیز ہے اور طرز تحریر بھی بہت عمدہ اور پُر اثر ہے۔ میسیج کےاختتام پر مضمون نگار کا نام لکھا ہے۔ ایک دن بعد وہی مضمون وہاٹس ایپ کے ایک دوسرے گروپ میں نظر آیا۔ مضمون ہو بہو اور لفظ بہ لفظ وہی تھا لیکن مضمون نگار کا نام تبدیل تھا۔ پتہ نہیں ان دونوں میں سے اصل مضمون نگار کون ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ مضمون نگار کوئی تیسرا شخص ہو۔  یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ دوسروں کو نصیحت کرنےوالے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔  اساتذہ پر تنقید کرکے ایک گروپ میں تھوڑی واہ واہی تو ہوگئی لیکن جب یہ پتہ چلے گا کہ وہ مضمون چوری کا ہے، تو اسی گروپ میں ان کی کیا عزت رہے گی؟
     بہرحال اس گروپ میں اس میسیج پر تبصرے بھی ہوئے جن میں سےبیشتر نے ’مضمون نگار‘کی تائید کی۔ اس بات پر سبھی نے اتفاق کیا کہ ٹیچرس کے ذریعہ طلبہ سے گفٹ وصول نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی گروپ میں بھیونڈی کے ایک معزز ٹیچر جوہمارے دوست بھی ہیں، نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ بھیونڈی کے کسی اسکول میں ایسا نہیں ہوتا۔لیکن جب ہم نے اس تعلق سے تھوڑی سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس بدعت سے بھیونڈی کے اسکول اور کالج بھی پاک نہیں ہیں،  بالخصوص ان اسکولوں اور کالجوں میں جہاں لڑکیاں پڑھاتی ہیں اور لڑکیاں ہی پڑھتی ہیں۔  یہ تمام اسکولوں میں رائج نہیں ہے لیکن کئی اسکول اور کالج اس مرض میں مبتلا ہیں۔
    بلاشبہ کسی اسکول میں طلبہ پر گفٹ دینے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا جاتا لیکن یہ بات ان اساتذہ کرام کوخود ہی سوچنی چاہئے کہ کیا ان طلبہ سے گفٹ وصول کرنا اچھی بات ہے جنہیں جیب خرچ کے نام پر محض پانچ، دس اور بیس روپے ملتے ہوں۔اسکول اور کالج میں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی رہتی ہے کہ بچے زرق برق اور مہنگے لباس میں اسکول نہ آئیں جس کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوں ، ایسے میں  ٹیچرس ڈے کے موقع پر اگر چند طلبہ قیمتی تحفہ دے کر اپنے استاد کے منظور نظر بننے کی کوشش کرتے ہیں تو دیگر طلبہ پراخلاقی  دباؤ پڑتا ہے کہ وہ بھی اپنے استاد کو ’خوش‘ کرنے کی کوشش کرے۔استاد اور طالب علم کا رشتہ بہت مقدس ہوتا ہے، لہٰذا کوئی طالب علم اپنے کسی استاد کو کتنا بھی کچھ دے دے، وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتا لیکن یہ استاد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تحائف خریدکردینے والے طلبہ کی حوصلہ شکنی کریں۔  طلبہ کو بھی چاہئے کہ اس موقع پر وہ استاد کو کوئی مادّی تحفہ دینے کے بجائے خلوص کا نذرانہ پیش کریں ۔ وہ انہیں  اپنے ہاتھ سے لکھ کر سپاس نامہ جیساکچھ دیں... لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمتی تحائف کے درمیان کیا اس طرح کے تحائف قبول کئے جائیں گے     ۔

No comments:

Post a Comment