Wednesday 30 September 2015

Taleem niswaan and masayel

تعلیم نسواں اور مسائل
!
گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ تقسیم انعامات سے متعلق ایک تعلیمی پروگرام میں ایک معزز مہمان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انعام یافتگان میں سب لڑکیاںہی ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انعامات کی تقسیم کا یہ منظردیکھ کر میں حیران ہوں کہ تمام انعامات پر لڑکیاں قابض ہیں اور لڑکے بیٹھے صرف تالیاں بجا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ اگر لڑکیاں اسی طرح تعلیم میں آگے بڑھتی رہیں اور لڑکے اسی طرح پیچھے رہے تو ایک بڑا سماجی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ان لڑکیوں کیلئے مناسب رشتہ تلاش کرنا ابھی محال ہے، آگے  پتہ نہیں حالات کتنے خراب ہوںگے؟‘‘
    واقعی یہ بڑاحساس مسئلہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ لڑکیاں ، میٹرک فیل لڑکوں کے گلے باندھی جا رہی ہیں۔ ایم اے بی ایڈ لڑکیوں کے شوہر رکشا چلا رہے ہیں یا ٹھیلے پر سبزیاں فروخت کررہے ہیں۔ رکشا چلانا اور سبزیاں بیجنا  غلط نہیں ہے اور کسی بھی لحاظ سے  یہ کوئی معیوب پیشہ نہیں ہے لیکن اندازہ  یہی ہے اور مشاہدہ بھی کہ ان حالات میں میاں بیوی کے رشتوں میں توازن نہیں رہتا ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ بیوی ایم اے بی ایڈ ہے تو ملازمت ہی کرے لیکن  مناسب تو یہی ہے کہ اسے شوہر اس کے معیار کا ملے۔ ایم اے بی ایڈ نہ سہی ، پوسٹ گریجویٹ تو ہو اور اگر اس کے بھی لالے پڑے ہوں تو کم از کم گریجویٹ تو رہنا ہی چاہئے۔
    لیکن اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ لڑکیاں کم پڑھیں بلکہ کوشش یہ ہو کہ لڑکے زیادہ پڑھیں۔ اسی تقریب میں بطور مہمان تشریف لائی ایک خاتون ڈاکٹر بھی تھیںجو ایم بی بی ایس کے بعدابھی گائنا کولوجی میں پوسٹ گریجویشن کررہی ہیں۔ انہوں نے اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ یہی باتیں کہیں کہ ’’آپ کو افسوس اس بات پر کرنا چاہئے تھا کہ لڑکے انعام کیوں نہیں حاصل کررہے ہیں ، نہ کہ اس بات پر کہ لڑکیاں کیوں انعام حاصل کررہی ہیں؟‘‘  خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکے اگر پڑھتے ہیں تو خوشی ہمیں بھی ہوگی لیکن ان کے نہ پڑھنے سے ہم اپنی تعلیم کیوںمنقطع کردیں؟ بات بالکل درست  ہے۔یہ موضوع غور و فکر کا متقاضی ہے۔
    بہت مشہور مثال ہے کہ بلیک بورڈ پر استاذ نے ایک لکیرکھینچ کر طلبہ سے کہا کہ اس لکیر کو ہاتھ لگائے بغیر اسے چھوٹا کرو۔ طلبہ کو سانپ سونگھ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟  ہاتھ لگائے بغیر اسے بھلا چھوٹا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ پھر استاذ گرامی نے اس کے قریب ہی اس سے قدرے بڑی  ایک اور لکیر کھینچ دی اور کہا کہ ان میں چھوٹی کون سی ہے؟ سبھی نے پہلی لکیر کی طرف نشاندہی کی۔ استاد نے کہا کہ ہاتھ لگائے بغیر ہی یہ لکیر چھوٹی ہوگئی نا! پھر انہوں نے کہا کہ مسابقت کے زمانے میں اگر آپ کو کسی سے آگے بڑھنا ہے تو اس  سے بہتر کرنے کی کوشش کرو۔
    کچھ اسی طرح کی کوشش اس تعلیمی توازن کو بہتر کرنے کیلئے بھی کرنے کی ضرورت ہے       ۔

No comments:

Post a Comment