Tuesday 21 July 2015

Modi ki bolti band

مودی کی بولتی بند
 
قطب الدین شاہد

بی جے پی کے اسٹار مقرر تھے لیکن آج چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ صرف ایک سال میں’پھینکو ‘سے ’مون مودی‘ ہوگئے۔ یوپی اے کے دور حکومت میں بات بات پرسوال پوچھنے والے اور حکومت کوگھیرنےوالے نریندر مودی اب بڑے بڑے موضوعات پر بھی لب کشائی کی زحمت نہیں کررہے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ ہو یا للت مودی سے ان کی پارٹی کی ۲؍ اہم خاتون لیڈروں کے مراسم کی بات ہو، مہاراشٹر کا چکی گھوٹالہ ہو یا پھر منظم طور پر  مدھیہ پردیش کا ریاست گیر ویاپم اسکینڈل۔ ان تمام موضوعات پر وزیراعظم  نے چپی سادھ رکھی ہے۔
     بہت پرانی بات نہیں ہے، ابھی ایک سال قبل تک بی جے پی کی جانب سے صرف مودی بولتے تھے، ہرموضوع پر بولتے تھے اور بہت بولتے تھے، خواہ اس موضوع سے ان کی واقفیت ہو ، نہ ہو۔  بی جے پی نے انہیں اپنے لئے زندہ طلسمات سمجھ لیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاریخ اور جغرافیہ سے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر وہ کئی بار مذاق کا موضوع بھی بنے لیکن ، مودی، بی جے پی اور ان کے حامیوں کو اس وقت کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ مودی کی اسی یاوہ گویائی کی وجہ سے سوشیل میڈیا پر انہیں پھینکو کہا جانے لگا تھا لیکن ایک ہی سال میں مودی ، پھینکو سے مون مودی ہوگئے۔ ایک سال قبل نریندر مودی ،بات بات پر اُس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا مذاق اڑایاکرتے تھے، ان کی خاموش مزاجی پر طنزیہ فقرے کستے تھے اورانہیں مون مون سنگھ کہتے تھے۔ آج  مودی جی خود اپنے ہونٹ سی لینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
    مودی جی کی حالت دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک صاحب کہیں دعوت میں گئے تو کھانا کھانے کے بعدایک پیالے میں زردہ بھی پیش کیا گیا۔ یہ زردہ چمچ سے کھانا تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گرم ہوگا۔ایک چمچ اٹھاکر منہ میں رکھا تو نانی یاد آگئی لیکن کریں تو کیا کریں؟ اگلنے پر بے عزتی کا خطرہ تھا۔ ایسے میں کسی طرح اسے نگل گئے لیکن اس عمل کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے قریب بیٹھے ایک صاحب پریشان ہوگئے کہ بھائی کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہے ہیں؟  اب یہ بیچارے اپنی کیفیت کیا بتاتے لہٰذا ایک کہانی گھڑی کہ ’’میرے پڑوس میں ایک بچہ بہت بیمار ہے۔ میں گھر سے نکل رہا تھا تو اس کےاہل خانہ اسے اسپتال لے جارہے تھے۔ابھی یہ لقمہ لیتے ہوئے مجھے اس کا  خیال آگیاتو آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ ‘‘ تب تک وہ صاحب بھی ایک چمچ زردہ اپنے منہ میں رکھ چکے تھے۔ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی انہیں  اندازہ ہوگیا کہ کون بیمار ہے اور کتنا بیمار ہے؟ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔  اس پر ایک تیسرے صاحب نے استفسار کیا کہ بھئی آپ کو کیاہوا؟ توانہوں نے کہا کہ’’ مجھے بھی وہ بچہ یاد آگیا۔ پتہ نہیں اس کی طبیعت کیسی  ہے؟ اسپتال میں جانےوالوں کا خدا ہی نگہبان ہوتا ہے۔ ‘‘
    مسلسل اور بے تحاشہ بولنےوالے مودی جی کی خاموشی بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں جن سے ایک سال قبل تک منموہن سنگھ جوجھ رہے تھے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد للت گیٹ، ویاپم اسکینڈل، ساتھیوں کی فرضی ڈگریاں اور  مہاراشٹر سرکار کے چکی گھوٹالےنے ان کی بولتی بند کردی ہے۔  ایک ہی سال میں بی جے پی حکومت کی ساری قلعی اتر چکی ہے۔  وہ طبقہ جو بی جے پی کی حقیقت جانتا تھا،اسے مودی حکومت کے بے نقاب ہونے سے کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہے لیکن وہ طبقہ جو بی جے پی اور مودی کے سحرمیں گرفتار ہوا تھا اوراس کی وجہ سے  اس نےحکومت تبدیل کرنے کیلئے اپنی توانائی صرف کی تھی، وہ آج بہت زیادہ مایوس ہے۔  ان میں سے بعض یہ کہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ’’اس سے اچھی تو سابقہ حکومت ہی تھی۔‘‘   بلاشبہ لوٹ کھسوٹ اور انانیت کانگریسی حکومت کا بھی وطیرہ تھا لیکن اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حلف برداری کے بعد ہی مودی جی کارپوریٹ دنیا سے کئے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ بات ایف ڈی آئی کی ہو یا تحویل اراضی بل کا معاملہ ہو، مودی حکومت نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے عوام کی نہیں،خواص کی فکر ہے اور خواص میں بھی بس ایک مخصوص طبقے کی جس میں اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مودی کے بیشتر بین الاقوامی دورے انہیں کےمفادات کی تکمیل کی خاطر ہوئے ہیں۔ مودی کی انہیں ’کارگزاریوں‘ کے سبب مودی کے وہ بھکت بھی پریشان اور شرمندہ شرمندہ سے ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران   مودی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔
    تشہیر اورتقریر کے سہارے اقتدار میں آنے اور نظام حکومت چلانے کی کوشش کرنےوالے مودی جی کو شایداس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ لچھے دار باتوں سے حکومت نہیں چلتی۔  میڈیا کے بھر پور تعاون سے بی جے پی  عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب تو ہوگئی تھی کہ ملک کے باہر بہت سارا کالا دھن ہے اور یہ کہ اس کیلئے پوری طرح سے کانگریس کی سربراہی والی یوپی اے حکومت ذمہ دار ہے۔  تشہیر اور تقریر ہی کی کامیابی تھی کہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ امید ہوچلی تھی کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی ان کے ’اچھے دن‘ آجائیںگے لیکن اب جبکہ مودی سرکار نے اپنے قیام کی پہلی سالگرہ منا لی ہے، عوام اس طلسم سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب بی جے پی  لیڈروں کی لچھے دار تقریریں  انہیں اچھی نہیں لگتیں ، یہاں تک کہ مودی کے من کی بات بھی لوگوں کو نہیں بھاتی۔
    اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مودی نے تشہیری مہم کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔  وہ جن دھن یوجنا ہو،سوچھ بھارت ابھیان ہو، بیمہ پالیسی ہو ، ریڈیو  پر من کی بات ہو یا یوگا ڈے کے موقع پر کیا جانے والا ڈراما۔ ان تمام پر مودی سرکار نے عوام کی گاڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہایا اوراسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ ابھی حال ہی ایک رپورٹ آئی کہ موجودہ لوک سبھا کے اراکین پارلیمان نے صرف ایک سال میں اپنی آسائش پراتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ سابقہ حکومت کے اراکین پارلیمان ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں کئےتھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان کی تشہیر پر ۱۰۰؍ کروڑ روپوں کے خرچ کی بات بھی سامنے آئی ہے۔اتنی رقم اگر واقعی صاف صفائی پر خرچ کی گئی ہوتی تو ملک کا ایک کونہ تو بہرحال صاف ستھرا ہوجاتا۔
    عوام کب تک خاموش رہیںگے؟ کب تک سوال نہیں کریں گے؟ ظاہر  ہے کہ بی جے پی کو صرف اس کے معتقدین  اور خاکی نیکر والوں ہی نے تو ووٹ نہیں دیا تھا کہ کچھ بھی کرنے کی آزادی رہے گی۔ یقیناً اس میں ایک بڑی تعداد ایسے رائے دہندگان کی بھی تھی جو ترقی کے نا م پر میڈیا کے بہکاوے میں آئے تھے۔  اب وہ سوال کررہے ہیں تو بی جے پی لیڈروں کی بولتی بند ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فرق ہے بی جے پی اور کانگریس میں، تو بی جے پی لیڈر آئیں بائیں اورشائیں بک رہے ہیں۔   دوران انتخابات مودی نے دعویٰ کیاتھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو پلک جھپکتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کیلئے وہی کالا دھن لانے کی بات کہی گئی تھی اور عوام کو ورغلایا تھا کہ اس مد میں بیرون ملک اتنی بڑی رقم جمع ہے کہ واپس آجائے تو وارے نیارے ہوجائیں گے اور ملک کے ہر شہری کو ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کی  خطیررقم ملے گی۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد   جب عوام نے سوال کیا کہ اچھے دن کب آئیںگے تو مودی نے یہ کہتے ہوئے  ۳؍ ماہ کا وقت لیا کہ ابھی تو ہماری حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہیں ہوا ۔ تین ماہ پورے ہوئے تو ایک سال کی بات کی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ کانگریس نے اس ملک پر ۶۰؍ سال حکومت کی ہے، بی جے پی کو ۶۰؍ ماہ کا موقع تو دیجئے۔ 
    اپنی حکومت کی ایک سالہ تکمیل کے موقع پر نریندر مودی نے ایک لچھے دار تقریر کی تھی۔ شاید وہ ان کی آخری تقریر تھی۔ اس پُرجوش تقریر میںانہوں نے بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیاتھا کہ ایک سال گزر گیا، لیکن ایک بھی گھوٹالہ سامنے نہیں آیا اور پھر اپنے اسی جانے پہچانے انداز میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ کیا یہ اچھے دن نہیں ہیں؟  یہ اور بات ہے کہ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ اس سے پہلے ہی منظر عام پر آچکا تھا لیکن بی جے پی کی نظر میں وہ کوئی بدعنوانی اور بے ضابطگی نہیں ہے کیونکہ ایسی بے ضابطگیاں  تو مودی جی بھی اپنی بیوی کے تعلق سے برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔ بی جے پی اس طرح کی باتوں کو اُس وقت بے ضابطگی اوربدعنوانی قرار دیتی ہے جب معاملہ جتندر سنگھ تومر جیسے کسی دوسرے پارٹی کے لیڈر کا ہو۔ اس کیلئے بی جے پی استعفیٰ مانگنے کیلئے ہنگامہ بھی کرتی ہے اور سڑک سے لے کر سنسد تک روک دینے کی دھمکی بھی دیتی ہے لیکن بات جب سشما، وسندھرا ، شیوراج چوہان اور پنکجا منڈے کی ہو تو وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ نہیں دیتے، یہ تو یوپی اے حکومت  کا خاصہ رہا ہے۔ 
    بہرحال ابھی تو عوام نے بی جے پی کی بولتی بند کی ہے۔ بی جے پی نے  اگراپنی اصلاح نہیں کی تو یہی عوام انہیں اقتدار سے بھی بے دخل کردیں گے اور   انانیت  پھر بھی باقی رہی توتاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے بھی گریز نہیں کریںگے ۔ بی جے پی اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرسکتی ہے کہ ۱۹۷۱ء کی شاندارکامیابی کے بعد ۱۹۷۷ءمیں کانگریس کس طرح آسمان کی بلندی سے زمین پر پھینکی گئی تھی؟ اور۱۹۸۴ء کی ریکارڈکامیابی کے بعد ۱۹۸۹ء میں اس کا کیا حشر ہوا تھا؟۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی کو عوام نے سر آنکھوںپر بٹھایا تھا لیکن جب توقعات پر پوری نہیں اتری تو  ۱۹۸۰ء میں اُسےبھی اس کی اوقات بتادی ۔  بی جے پی چاہے توخود اپنا ہی انجام دیکھ لے کہ  ۱۹۹۹ء میں دہلی پر قابض ہونے کے بعد۲۰۰۴ء میں اسے کس طرح  باہر کا راستہ دکھا یا گیا تھا۔ بی جے پی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے اور وقت آنے پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment