Tuesday 14 July 2015

بی این این کالج اور اُردو

گزشتہ کئی برسوں سے ایک منظم سازش کے تحت بھیونڈی کے قدیم  تعلیمی ادارے بی این این کالج سے اردو کو باہر کاراستہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس  پر جتنا افسوس کیا جائے، اس سے کہیں زیادہ افسوس کی بات ہمارے سیاست دانوں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ انتخابی دنوں میں  خود کو ملت کے قائد کے طور پر پیش کرنے والے تمام امیدوار اوران کی دلالی کرنےوالے ٹھیکیدار، سب کے سب خاموش ہیں۔  ہمارے اردو کےاساتذہ، ادیبوں اور شاعروں کی طرح ہمارے سیاستدانوں کے بچے بھی چونکہ اردو کم ہی  پڑھتے ہیں، اس لئے وہ اردو کی پروا کیوں کریں؟اردو تو اُن کے بچے پڑھتے ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ وہ تو یوں بھی ووٹ انہیں ہی دیںگے، پھر بلاوجہ کیوں اپنی  توانائی ضائع کی جائے۔ یہ لوگ  جلسے، جلوس اور ریلیاں اُس وقت نکالتے ہیں جب انتخابی دن قریب آ تے ہیں  یا ان کے سیاسی آقاؤں کی شان میں کہیں کوئی گستاخی ہوجاتی ہے۔ راہل گاندھی، شرد پوار، ملائم سنگھ، اویسی برادران یا  دیگر سیاسی لیڈروں کو ملک کے کسی کونے میںکوئی کچھ کہہ دے تو اپنی وفاداری جتانے کیلئے یہ تمام نام نہاد لیڈر ہزار پانچ سو بھاڑے کے ٹٹو لے کر مظاہرہ کرنے نکل جائیںگے لیکن بات جب اُردو کی آتی ہے تو یہ فوٹو کھنچوانے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتے۔  
       بی این این کالج بھیونڈی کا قدیم ترین سینئر کالج ہے۔ یہاں پہلے اردو سے ایم اے بھی ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے وہ فیکلٹی ختم کردی گئی ہے۔ گریجویشن کی سطح پر بھی اردو کےتعلق سے سرد مہری پائی جاتی ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اُردو میں اتنے طلبہ آجاتے ہیں کہ یوجی کا سلسلہ جاری ہے لیکن  اب جونیئر کالج کی سطح سے ہی اردو کی جڑ کاٹنے کی سازش رچی جارہی ہے۔یہ سلسلہ کئی برسوںسے جاری ہے۔  گیارہویں میں داخلے کے وقت طلبہ کو  بطور اختیاری مضمون اردو لینے سے روکا جارہا ہے، اس طرح کی شکایتیں گزشتہ کئی برسوںسے آرہی ہیں لیکن   اردو والوں کے ووٹوں کی بدولت اپنی سیاسی دکان چمکانے والے لیڈروں کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ہے۔پہلے تو یہ والدین کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرتے ہیں کہ اختیار ی مضمون کے طور پر ہندی یا مراٹھی   لینے سے ان کے کریئر کو چار چاند لگ جائے گا اور  بات نہیں بنتی تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اردو یہاں نہیں ہے۔یہاں ہرسال اخبارات میں خبریںشائع ہونے کے بعدتھوڑی سی سیاسی مداخلت ہوتی ہے اور اس کے بعدہی اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنے کی ایک طرح سے اجازت ملتی ہے۔ اس مرتبہ تو کالج انتظامیہ نے فارم میں اردو کا متبادل بھی ختم کردیا ہے جس کے تعلق سے ان کی وضاحت آئی ہے کہ ایسا ’غلطی‘ سے ہوا ہے۔
    کیا  ہمارے سیاست داں اب بھی نہیں جاگیں گے اور اس کا کوئی مستقل حل تلاش کریںگے؟

No comments:

Post a Comment