Wednesday 27 September 2023

Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid

نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی   

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

وزیراعظم مودی خبروں میں رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ ہے  ۱۸؍ ستمبر کو پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں دی گئی ان کی الوداعی تقریر۔اس تقریر کو ان کی سابقہ تقریروں سے مختلف قرار دیا جارہا ہے۔ تقریر سن کر مودی کے مخالفین بھی حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اور ان کے حامیوں کا تو خیربرا حال تھا ہی۔ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے ۶؍ مرتبہ ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا اورحیرت انگیز طورپر ’مثبت انداز‘ میں لیا۔ اسی طرح درمیان میں سابق وزرائے اعظم کے طورپر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، نرسمہا راؤ، وی پی سنگھ، دیوے گوڑا، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کابھی نام لیا۔ تقریر ختم ہوئی اوراس پرتبصرہ اور تجزیہ کا دور چلا تو عقدہ کھلا کہ تقریر کے صرف الفاظ بدلے ہیں، انداز نہیں بدلا۔  ہندوستان کی ۷۵؍ برسوں کی جمہوری تاریخ بیان کرتے ہوئےاگرانہوں نے اپنے علاوہ کچھ اور ’شخصیات‘  کا نام لیا ہے تو  اس میں ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف کم، اُن کے سامنے اپنی موجودگی کااظہار زیادہ ہے۔اس تقریر کے ذریعہ ایک بار پھر ان کی اُس دبی ہوئی خواہش کا اظہار ہوگیا کہ ہندوستان کی تاریخ میں وہ نہرو کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔  وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کا سفر طے کرلینے کے بعد نریندر مودی  کے دل میں جوخواہش شدت کے ساتھ اُبھری اور جسے اکثر و بیشتر عوام نے بھی محسوس کیا، وہ یہی تھی۔ تاریخ میں وہ پنڈت نہرو سے اگر آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم از کم ان کے برابرکھڑا ہونا چاہتے ہیں ۔اس کیلئے وہ کبھی تنقید کا تو کبھی جھوٹ کا اور کبھی تعریف کا سہارا لیتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمار ت میں منتقلی سے قبل  پرانی عمارت میں وزیراعظم مودی  الوداعی خطاب کرکے اپنی تقریر کا موازنہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اُس یادگار تقریر (ٹریسٹ وِد ڈیسٹنی) سے کروانا چاہتے تھے جو انہوں نے ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے وقت ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب میں کی تھی۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم مودی نے اُس شہرہ آفاق تقریر کا حوالہ  دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسی ایوان میں پنڈت نہرو کے ذریعہ کی گئی تقریر ’اَیٹ دی اسٹروک آف مڈنائٹ‘ کی گونج ہمیں متحرک کرتی رہے گی۔‘‘ وزیراعظم مودی نے شاید قصداً اُن کا آدھا ہی جملہ دُہرایا کیونکہ اس پورے جملے میں لفظ ’انڈیا‘ بھی آتا ہے جو آج کل مودی، بی جے پی اور حکمراں محاذ کوبہت زیادہ پریشان کررہا ہے۔ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ’’ نصف شب کے وقت، جب دنیا سوئی ہوئی ہو گی، ہندوستان زندگی اور آزادی کیلئے بیدار ہوگا۔‘‘  
وزیراعظم مودی کی اس تقریر کو ’مثبت‘ بتایا جارہا ہےاور اس کیلئے ان کے حامی ان کی تعریف بھی کررہے ہیں لیکن  اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی منفی رویوں کی کثرت ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پنڈت نہرو جی اور شاستری جی  سے لے کر اٹل جی اور منموہن جی تک ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس ایوان کی قیادت کی ہے اور اس ایوان کے ذریعہ ملک کو ایک سمت عطا کی ہے۔ ملک کو نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے کیلئے انہوں نے کافی محنت کی ہے،اسلئے ہمیں ان کی خدمات کاا عتراف کرنا چاہئے۔‘‘ لیکن اگلے ہی پل وہ پھر تنقید پر بھی اُتر آتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا کہ وہ تعریف کر رہے ہیں  یا تنقید؟ ۷۵؍ سالہ ہندوستانی جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت اسی ایوان نے اندرا گاندھی کی قیادت میں کی اور اسی ایوان نے ایمرجنسی میں جمہوریت پر ہوتا ہوا حملہ بھی دیکھا اور یہی ایوان ہندوستانیوں کی طاقت کا احساس کراتے ہوئے ایک مضبوط جمہوریت کی واپسی کا گواہ بھی بنا۔‘‘ وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں کے تعلق سے  یہ کہتے  ہوئےاپنے انداز میں انہوں نے مذاق بھی اڑایا کہ ’’اتحادی حکومتوں کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔‘‘
اسی  طرح مرار جی دیسائی اور وی پی سنگھ کی خدمات کا’اعتراف‘ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ زندگی بھر کانگریس میں رہے اور کانگریس مخالف حکومت کی قیادت کی۔‘‘ 
   وزیراعظم مودی نےنیوکلیائی تجربے کا پورا کریڈٹ  اٹل بہاری واجپئی کو دے دیا جبکہ منموہن سنگھ کی حکومت کو ’کیش فار ووٹ‘کیلئے یاد کیا حالانکہ’آر ٹی آئی، آر ٹی ای،منریگا اور فوڈ سیکوریٹی‘ جیسی کئی باتیں تھیں جن کے حوالے سے منموہن سنگھ حکومت کو یاد کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک نیوکلیائی تجربے کیلئے کریڈٹ دینے کی بات ہے، وزیراعظم مودی کا دعویٰ نہ تو تکنیکی اعتبار سے درست ہے، نہ ہی حقائق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ملک میں پہلا نیوکلیائی تجربہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں۱۸؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا تھا جبکہ دوسرا تجربہ اٹل بہاری واجپئی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کے محض ۵۳؍ دن بعد یعنی ۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ہوا تھا۔ واجپئی سے قبل ملک میں اندر کمار گجرال کی حکومت تھی۔ اس کے بعد وہ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘کی بات کرتے ہوئے  اپنی تعریف پرآگئے اور’تاریخی‘ فیصلوں کا تذکرہ کرنے لگے۔دفعہ۳۷۰؍ کے خاتمے کی بات کی، اعلیٰ ذات والوں  کو دیئے گئے (ای ڈبلیو ایس) ریزرویشن کا تذکرہ کیا اور ون نیشن ون رینک اور  ون نیشن ون ٹیکس (جی ایس ٹی) کیلئے بھی اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔
اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو کوسنے اور اس کے لیڈروں کا مذاق اُڑانے والے وزیراعظم مودی  نے مذکورہ الوداعی خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ہم یہاں ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔  یہ اس ایوان کی طاقت ہے۔ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے لیکن ... اپنی اسی تقریر میں انہوں نے ’واٹر پالیسی ‘کیلئے بھیم راؤ  امبیڈکر کو یاد کیا اور ’انڈسٹری پالیسی‘ کیلئے شیاما پرساد مکھرجی کے گن گان کئے لیکن ’ایجوکیشن پالیسی‘ کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد کو یاد نہیں کیا جنہوں نے ملک میں آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی  جیسے موقر اداروں کی بنیاد ڈالی۔وقفے وقفے سے انہوں نے  پنڈت نہرو کا ۶؍ مرتبہ نام ضرور لیا لیکن وہ اس بات کیلئے اُن کی تعریف نہیں کرسکے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں اپنے مخالف نظریات کے لیڈروں (شیاما پرساد مکھرجی، بی آر امبیڈکر اور بلدیو سنگھ) کو بھی شامل کیا تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی آڑ لے کرمودی حکومت اپنے مخالف لیڈروں کو اپوزیشن لیڈر تک کا عہدہ دینے کیلئے تیار نہیں  ہے۔
اپنی اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی وزیراعظم مودی نے کانگریس پرتنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔  آندھر ا پردیش کی تقسیم  اور تلنگانہ کی تشکیل پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واجپئی کے دور میں چھتیس گڑھ،  جھارکھنڈ اور اترا کھنڈ کا قیام نہایت خوش اسلوبی سے ہوگیا تھا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اُس  وقت مذکورہ ریاستوں کے ساتھ ہی  مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں بھی جشن کا ماحول تھا جبکہ یہاں پر نہ توآندھرا کے عوام خوش تھے، نہ ہی تلنگانہ کے عوام کو اطمینان تھا۔ حالانکہ ریاستوں کی تقسیم کے وقت مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں ماحول کافی کشیدہ تھا اور عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی تھی۔جی ۔۲۰؍ کے حوالے سے کہا کہ’’ملک کے تئیں شک کرنے کا ایک رویہ بھی  یہاںہے  اور یہ ملک کی آزادی کے وقت ہی سے چلا آرہا ہے۔ اس بار بھی یہی تھا۔ کہا جارہا تھا کہ کوئی قرار دار منظور نہیں ہوپائے گی، یہ ناممکن ہے... لیکن یہ ہندوستان کی طاقت ہے کہ سب کچھ ہوا۔‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان ’عالمی دوست‘کی شکل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ جی۔۲۰؍ کا اجلاس ختم ہوتےہی وزیراعظم کے اس دعوے کی قلعی اُترگئی کیونکہ امریکہ، کنیڈا اور ترکی سے اختلافات کی خبریں منظر عام پرآنے لگی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے جس طرح سے دوسروں بالخصوص پنڈت نہرو کو یاد کیا، کیا اس سےان کی شبیہ میں کوئی تبدیلی آپائے گی؟ کیا ان کی وہ خواہش پوری ہوپائے گی کہ لوگ انہیں نہرو کی طرح یاد کریں؟   فی الحال یہ اتنا آسان تو نہیں لگ رہا ہے۔معروف صحافی اجے شکلا   نےان کیلئے ایک اچھا مشورہ دیا ہےکہ مودی جی اگر واقعی پنڈت نہرو سے اپنا موازنہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ’ڈسکوری آف انڈیا‘ کامطالعہ کرلیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔n

No comments:

Post a Comment