Saturday 16 September 2023

Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha

 دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ایک بینک میں ایک صارف کی کلرک سے بحث ہورہی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا انداز بتا رہا تھا کہ ان میں شناسائی ہے۔ صارف کوئی پیسے والا آدمی تھا، جس کی وجہ سے کلرک  ذرا ’دب‘ کر بات کررہاتھا، ورنہ بینک اور وہ بھی سرکاری بینک کا ملازم کسی صارف  سے دب کر بات کرے،  اس کی بھلا کون توقع کرسکتا ہے۔ کلرک کہہ رہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے۔ہم اس چیک کو پاس نہیں کر سکتے۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ صارف کے چیک پر لکھے گئے نام میں شامل ’احمد‘ کی اسپیلنگ میں ’ای‘ اور ’اے‘ کا فرق تھا۔ ’احمد‘ نام میں ’ڈی‘ سے قبل ’ای‘ اور ’اے‘   کا مسئلہ ہمارے یہاں عام بات ہے لیکن اب اس کا خمیازہ لوگوں کو کس طرح سے بھگتنا پڑرہا ہے، اس کی ایک مثال بینک کا مذکورہ واقعہ ہے۔
اگرالگ الگ دستاویزات میں آپ کے نام  کے املا میں فرق ہے، خواہ یہ فرق کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، تو قدم قدم پر مسائل سے جوجھنے کیلئے  آپ کوتیار رہنا چاہئے۔  اگر وقت رہتے آپ نے اس مسئلے کوحل نہیں کیا تو یہ کئی نسلوں تک آپ کا تعاقب کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر ملک میں ’این آر سی‘ اور’سی اے اے‘ کا قانون  نافذ ہوگیا، جیسا کہ سرکار چاہتی ہے تو کاغذات میں خامیوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین سب سے پہلے  اپنے کاغذات کو درست کرائیں۔ جہاں تک اور جس طرح سے بھی ممکن ہو، وہ اپنے نام کے  املامیں یکسانیت لانے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد بچوں کے دستاویزات میں موجود خامیوں کو دور کرانے کی کوشش کریں۔ بچوں کے ناموں میں آجانے والی  خامیوں کی درستگی کا پہلا مرحلہ اس کے اسکول ہوتے ہیں۔ برتھ سرٹیفکیٹ  میں اگر کوئی خامی رہ گئی ہے اور اسی خامی کے ساتھ آدھار کارڈ بن گیا ہے اور اسکول میں نام درج ہوگیا ہے تو اس غلطی کا احساس ہوتے ہی  اسکول سے رابطہ قائم کرنے اورغلطی کی اصلا ح کی کوشش کرنی چاہئے۔
میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں  اسکولوں کے ذمہ داران اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر اسکولوں کے کلاس ٹیچر، کلرک، ایچ ایم اور سوسائٹی کے عہدیداران ، جن کے زیراہتمام اسکول چلتے ہیں، یہ ٹھان لیںکہ وہ اپنے اسکولوں میں زیر تعلیم کسی بچے کے دستاویز میں کوئی خامی نہیں رہنے دیں گے، تو اس طرح کی غلطیاں اُسی ایک جگہ سے  بڑی حد تک اور بڑی آسانی سے دور ہوجائیں گی۔ لیکن یہ کام اسکول کی ڈیوٹی سمجھ کرنہیں بلکہ قوم کی خدمت سمجھ کر کرنی ہوگی۔ اگر یہ احساس نہیں رہا تو ان ’ذمہ داران‘کی آنکھوں کے سامنے غلطیاں ہونے  اور والدین کی جانب سے درخواست کئے جانے کے باوجود  وہ دور نہیں کی جائیں گی۔ والدین  کی جانب سے اس طرح کی شکایتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ درخواست دینے، منت سماجت کرنے ، یہاں تک رونے ،گڑگڑانے کے باوجود اسکول کی سطح  سے درست ہونے والی غلطیاں بھی ٹھیک نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے میں بیشتراسکولوں کے ذمہ داران کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ ’گزٹ‘ کروا لیں،  حالانکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گزٹ کروانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے ممبئی کے ’مدنی ہائی اسکول‘ نے گزشتہ دنوں ایک قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ اسے مثالی کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ۲۶؍ اگست کو اسکول نے ’ڈاکیو مینٹ ڈے‘ کے نام سے ایک بیداری پروگرام منعقدہ کیا تھا جس میںپیدائشی سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ،آدھار کارڈاور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی خامیوں کو دور کرنے یا نیا بنانے سے متعلق والدین اور طلبہ کی رہنمائی کی گئی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اسکول کے ذمہ داران نے صرف اپنے طلبہ کی مدد نہیں کی بلکہ دیگر بچوں کی بھی رہنمائی کی اور صرف زبانی رہنمائی  نہیں بلکہ سرکاری دفاتر سے ان کے کام بھی کروائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس طرح کی پیش رفت ہمارے دوسرے ادارے بھی کرسکتے ہیں  ۔

No comments:

Post a Comment