Saturday 14 May 2011

اسمبلی انتخابات کے نتائج


اسمبلی انتخابات کے نتائج
نوشتۂ دیوار ہیں سیاسی جماعتوں کے لئے
عوام نے  ابھی صرف ’تبدیلی‘ کا حربہ آزمایا ہے اورسیاست دانوںکو موقع فراہم کیا ہے کہ وقت رہتے سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں..... بصورت دیگر وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ’تبدیلی‘ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
قطب الدین شاہد
  ہندوستانی سیاست دانوں کے لئے یہ بات باعث تشویش ہونی چاہئےکہ وطن عزیز میں اب ووٹنگ محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفرت کی بنیاد پرہونے لگی ہے۔ ان حالات میں جیتنے والی جماعتیں اگر یہ سوچتی ہیں کہ  ان کی عوامی مقبولیت  نے انہیں مسنداقتدا ر تک پہنچایا ہے اور یہ کہ عوام میں ان کی پسندیدگی کا گراف بلند ہوا ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا.... بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ان کے حریف کے تئیں عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اقتدارسے بے دخل کیا ہے۔عوام کے پاس چونکہ زیادہ متبادلات نہیں ہیں لہٰذا وہ ایک دائرے میں ہی گھومتے رہتے ہیں اوراس طرح باری باری تمام جماعتوں کو اقتدار کے تالاب میں غوطہ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یاد رکھیں کہ جس دن عوام نے دائرے سے باہر نکلنے کا ذہن بنالیا، سیاست دانوں کا قافیہ تنگ ہوجائے گا۔ اس کاایک ہلکاسا اشارہ انا ہزارے کی تحریک کی صورت میں دیا جاچکا ہے۔
    مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔انتخابی نتائج جہاں ہارنے والی جماعتوں کے لئے عبرت کا سامان ہیں، وہیں جیتنے والی جماعتوں کے لئے باعث امتحان بھی ہیں..... مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ عبرت سمجھ کر نہ کو ئی اپنا محاسبہ کررہا ہے اور نہ ہی کوئی امتحان سمجھ کر سنجیدہ ہونا چاہتا ہے۔انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جہاں جیتنے والی جماعتوں کے اراکین بردباری کے مظاہرے کے بجائے زمین چھوڑ کر ہوا میں اُڑنے لگے ہیں، وہیں ہارنے والوں نے اپنے احتساب کے بجائے تاویلات اور بہانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔  ممتا بنرجی اور جے للیتا کو اگر تھوڑے وقت کیلئے نظر انداز بھی کردیں کہ ان دونوں نے  بالترتیب  بایاں محاذ اور ڈی ایم کے کو شکست دینا ہی  اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا رکھا ہے، سی پی ایم، کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی جماعتیں بھی اپنے محاسبے کے بجائے ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کررہی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ تینوں بڑی جماعتیں اپنے گریبان میں جھانکتیں اوراس بات کا جائزہ لیتیں کہ عوام کی جانب سے انہیں دُھتکار کیوں ملی؟مگر اس کے برعکس یہ اپنی محدود کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے حریفوں کی ناکامیوں پر ان کا مضحکہ اُڑا رہی ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ جماعتیں اپنی کامیابیوں پر شاداں و فرحاں ہونے کے بجائے دوسروں کی ناکامیوں میں اپنے لئے راحت کا سامان ڈھونڈ رہی ہیں۔
    اس سے قبل کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر تبصرہ  ہو، آئیے ایک کہانی سن لیتے ہیں۔ ایک شخص کی تپسیا سے ایک سادھو بہت خوش ہوئے توانہوں نے اس سے کہا کہ ’’بیٹا! ہم تم سے بہت خوش ہوئے، آج تم جو مانگوگے، تمہیں ملے گا.... لیکن ایک شرط ہے... اور وہ یہ ہے کہ تمہیں جو ملے گا، تمہارے پڑوسی کو اس سے دوگنا ملے گا....  بول، کیا مانگتا ہے؟‘‘ کہانی کے مطابق بہت غور و خوض کے بعد وہ شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی ایک آنکھ ضائع کرنے کا ’وَردان‘ مانگ لے۔ اس کی وجہ سے اس کے پڑوسی کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجائیںگی جو اس کے لئے باعث مسرت ہوگی۔کہاجاتا ہے کہ وہ یقینا ہندوستانی سیاست داں رہا ہوگا کیونکہ یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
     خیر آئیے اب آتے ہیں، اپنے اصل موضوع پر۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے متعلق رجحانات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی آنکھوں میں موجود شہتیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ان اہم انتخابات میں بی جے پی کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔کانگریس کے ترجمان منیش یتواری نے کہا کہ انتخابی نتائج سے اگر کوئی اشارہ ملتا ہے ....تو وہ یہ کہ بی جے پی کی بحیثیت پارٹی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ آسام کےعلاوہ کانگریس کو کہیں بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی۔اسی طرح بی جے پی نے بھی بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو ’بے اوقات‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان انتخابات میں بی جے پی حالانکہ خود تو کچھ نہیں کرپائی مگر دشمن کے دشمن کی تعریف کرکے اپنے لئے راحت کا سامان تلاش کرنے کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے سے باز بھی نہیں آئی۔ تمل ناڈو میںجے للتا کی کامیابی پر بغلیں بجاتے ہوئے بی جے پی نے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کی جیت کا بھی  خیر مقدم کیا۔ اور اسی کے ساتھ  بی جے پی یہ کہنے سے نہیں چوکی کہ اتحاد کے رہنما کی حیثیت سے کانگریس بری طرح ناکام  ثابت ہوئی ہے۔
    بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس امیدواروں کی جیت کی شرح بہت کم ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اسے جو جیت ملی ہے، وہ ممتا کی مرہون منت ہے۔  بقول روی شنکر پرساد آسام میں کانگریس  اس لئے جیتی کہ بی جے پی اور آسام گن پریشد میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔
    ۵؍ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حالانکہ این سی پی اور شیوسینا کا کوئی رول نہیں تھا، یعنی یہاں ہونے والی ہار جیت سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن  بال ٹھاکرے اور شرد پوار دونوں نے بایاں محاذ کی شکست کا ’خیر مقدم‘ کیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی فکر نہیں ہے  بلکہ دوسروں کی دونوں آنکھوں کے ضیاع کی خوشی ہے۔ ان  کے ان بیانات اوران کے خوش ہونے کے اندازسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بایاں محاذ کو شکست دینے کیلئے کس ’ وسیع پیمانے پر اتحاد‘ کا مظاہرہ ہوا ہے۔
    بہرحال اب جبکہ نتائج سامنے آچکے ہیں ،تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑکر بیٹھنا  اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ان  انتخابات کے نتائج یقیناً تمام بالخصوص  قومی جماعتوں کے لئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
    مغربی بنگال میں۳۴؍ سال بعد بایاں محاذ کے قلعے میں سیندھ لگی ہے  اورکچھ اس طرح لگی کہ ’لال دُرگ‘ پوری طرح سے زمین بوس ہو گیا ہے۔ کیا یہ سب اچانک ہوا ہے؟ بایاں محاذ کواس پر غور کرنا چاہئے  اور اس سوال کا جواب تلاش کرناچاہئے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ گزشتہ ۷؍ مرتبہ سے بایاں محاذ کے حق میں ووٹنگ کرنے والے آج ان کے خلاف ہوگئے؟ اپنے دفاع میںاور اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں بعض کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ نیوکلیائی معاہدے کے وقت امریکہ کی مخالفت انہیں مہنگی پڑی۔ ان کے مطابق اس مرتبہ الیکشن میں امریکی پٹھوؤں نے بایاں محاذ کوشکست دینے کے لئے  نوٹوں کے دریا بہادیئے تھے۔ ممکن ہے ، اس میں کچھ حد تک سچائی بھی ہو لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا ریت میں سرچھپانے کے مصداق ہوگا۔لوک سبھا کے سابق اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے  اس کا بہتر تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ محاذ کو اسمبلی انتخابات میں اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ عوام سے دور ہوگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ عوام سے دوری ہوگئی تھی اور پارٹی کے عہدیداران عوام کے مزاج کو سمجھ نہیں پائے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ چند غلطیاں کی گئیں اور اس کا مناسب جائزہ نہیں لیا گیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس رجحان کا پتہ لوک سبھا کے انتخاب میں ہی چل گیا تھا لیکن محاذ نے پردہ پوشی کی کوشش کی تھی۔  سومنا تھ چٹر جی کا جائزہ بالکل درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ہی اس کااندازہ ہوگیا تھا۔ دراصل سچر کمیٹی کی رپورٹ آجانے کے بعد مسلمانوں کو زبردست صدمہ پہنچا کہ جس جماعت پر وہ اب تک اندھا اعتماد کرتے آئے تھے، ان کا استحصال کرنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اسی طرح سنگور اور نندی گرام کے معاملوںمیں بھی لیفٹ کے رویے کو مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا۔اب جبکہ بایاں محاذ کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ  اپنے (بد)اعمال کا جائزہ لیں اوراس کی اصلاح کریں۔
    اس الیکشن میں کانگریس کو زبردست شکست سے سابقہ پڑا ہے۔ آسام میں وہ ضرور کامیاب ہوئی مگر وہ صرف اسلئے کہ وہاں کوئی قابل ذکر  حزب اختلاف نہیں تھا۔کیرالہ میں ہارتے ہارتے بچی، حالانکہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف جس طرح کی رائے عامہ تھی، اس کی وجہ سے اس کے مکمل اکثریت میں آنے کاامکان تھا۔ تمل ناڈو میں کانگریس محاذ کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پانڈیچری میںبھی شکست فاش ہوئی۔ بنگال میں کانگریس کےہاتھ جو کچھ لگا،اس میں اس کی کوششیں کم، ممتا کی کاوشیں زیادہ ہیں۔کل ملا کر کانگریس کو زبردستی مسکرانے کے بجائے نہایت سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔  اس کے لئے کانگریس کو جہاں ایک جانب بدعنوانوں اور بدعنوانیوںسے فاصلہ بنانا ہوگا ،وہیں اپنے سیاسی اور سرکاری فیصلوں کے وقت عوامی مفاد کا مناسب خیال رکھنا ہوگا کیونکہ اس کی امیج  ’عوام مخالف‘ کی بن گئی ہے۔ ایسا کرکے ہی آئندہ سال اترپردیش، پنجاب ، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش،گوا اور منی پور کے  اسمبلی انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
    حالیہ ۵؍ ریاستوں میں بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا.... اوراگر اس نے اپنی روش تبدیل نہیں کی، تو آئندہ بھی اس کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے۔اسے ایک ہندوسیاسی جماعت کے بجائے ایک ہندوستانی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنا ہوگا ... بصورت دیگر اسے آئندہ مزید جھٹکوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
    مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نے صرف اور صرف تبدیلی کا ذائقہ چکھنے کے لئے اس طرح کے اُلٹ پھیر کی مشق کی ہے......  لیکن اقتدار پر قابض جماعتیں اس اصول کو فراموش نہ کریں کہ تبدیلی کو ہی انقلاب کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment