Monday 25 April 2011

حکومت ، عوام اور انا ہزارے

 کیا انا ہزارے نے حکومت کی دُ کھتی ر گ  پر ہاتھ رکھ دیا ہے؟
قطب الدین شاہد
لوک پال بل کے مطالبے سے یوپی اے حکومت بری طرح بلبلا اُٹھی ہے۔ حکومت بالخصوص کانگریس کی بوکھلاہٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے اس کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ یہ  بات درست ہے کہ محض لوک پال کی منظوری بدعنوانی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن..... اس سے ا س مریض کو کچھ تو افاقہ ہوسکتا  ہے.... مگر حکومت کو شاید یہ بھی گوارہ نہیں کہ اس کی روک تھام سے متعلق کوئی قدم اٹھایا جائے۔
    کسی بھی ملک میں انقلاب آنے کی موٹی موٹی دو تین وجہیں ہوتی ہیں۔
n جب حکومت آمریت میں تبدیل ہونے لگے
 nجب حکومت لوٹ کھسوٹ  پر اُتر آئے
nجب حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی کرنے لگے اور
nجب اپنے حقوق کے تئیں عوام میں بیداری آجائے۔
    یوپی اے حکومت کو اگر ان کسوٹیوں پر پرکھنے کی کوشش کی جائے تو ایسالگے گا کہ وطن عزیز میں انقلاب آنے کےلئے تمام ترجواز موجود ہیں۔ منموہن حکومت میںشروع کی تینوں علامتیں پائی جاتی ہیں.... بس چوتھی علامت کا انتظار ہے، یعنی جس دن عوام میں بیداری آگئی، حکومت کو اکھا ڑ پھینکنے میں تاخیر نہیں لگے گی۔
     آئیےچاروںنکات کااجمالی طورپرایک جائزہ لینے کی کوشش کریں۔
    افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پہلی میقات میں قدرے مناسب حکمرانی کے بعد عوام نے جس یوپی اے حکومت کے تئیں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا  اور اسے دوبارہ اقتدار سونپ دیا، وہ اب صریح آمریت پر اتر آئی ہے۔اس نے اس اصول کواٹھاکر طاق ِ نسیاں پررکھ دیا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت ہوتی ہے، جو عوام کے لئے کام کرتی ہے۔ دوسال سے بھی کم عرصے میں ایسے کئی مواقع آئے  جب جمہوری حکومت نے آمریت کا مظاہرہ کیا ہے اور  اپنی بے حسی (بلکہ اپنے  فیصلوں)سےاپنے عوام کو خون کے آنسو رلایا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کوشش میں جب جب اس کے قدم اکھڑے ہیں،اس نے مصالحت کا ڈرامہ بھی رچا ہے۔یہ مصالحت اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر نہیں بلکہ اقتدار بچانے کے لئے کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اے راجہ کو بچانے اور ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کو معمولی ثابت کرنے کی ضد میں اس نے پورے سرمائی اجلاس کو قربان کردیا تھا۔  اس ضد نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک مثال قائم کردی..... اور یقینا یہ کوئی اچھی مثال نہیں تھی۔ بی جے پی کی قیادت میں اپوزیشن کے ذریعہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنالینے کی حرکت کسی کو پسند نہیں آئی لیکن.....حکومت کے لاکھ پروپگنڈے کے باوجود یہ بات عوام پرمنکشف ہونے سے نہیں رہی کہ اس کے لئے اپوزیشن سے کہیں زیادہ ذمہ دار حکومت ہی رہی ہے۔بعد ازاں جب  بادل نخواستہ حکومت نے بدعنوانی کی تحقیقات کیلئے جے پی سی کے مطالبے کوتسلیم کرلیا.... تب بھی اس نے بدعنوانی کو کوئی عیب تصور نہیں کیا  بلکہ یہ کہتے ہوئے جے پی سی کے تشکیل کی بات کی کہ اسے ایوان کے ’تقدس‘ کا بڑا خیا ل ہے۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب حکومت نے بدعنوانوں کو بچانے کیلئے عوام  کے ساتھ اپوزیشن کے مطالبات کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھا ۔  دولت مشترکہ کھیل میں دولت کی ریل پیل  اور لوٹ کھسوٹ پر اول دن سے ہنگامہ رہا.... بار بار نشاندہی کے باوجود حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بلکہ وقفے وقفے سے لٹیروں کی پیٹھ بھی تھپتھپاتی رہی۔ عوام چیختے اور چلاتے رہے اور حکومت چین کی بانسری بجاتی رہی۔آدرش سوسائٹی گھوٹالہ بھی اس لحاظ سے ’مثالی‘ ثابت ہوا کہ حکومت نے محض وزیراعلیٰ کا چہرہ تبدیل کر مسئلہ  چٹکیوں میں’حل‘ کردیا۔
    آمریت کے ساتھ ساتھ حکومت اور اس کے کارندوں کی لوٹ کھسوٹ بھی جاری ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ملک جو اپنی نصف سے زائد آبادی کا پیٹ نہ بھرسکے، غریب اور پسماندہ ہی کہلانے کی مستحق ہے.... لیکن کیا واقعی ہم غریب ہیں؟ گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست پرنسپل ضیاء الرحمن انصاری نے ایک میل ارسال کیا تھا، جس میں ریاضی کے ذریعہ اس کی وضاحت کی تھی کہ ہم تمام ہندوستانی صرف کروڑ پتی ہی نہیں بلکہ ارب پتی بھی ہیں.... اوراگر فی الحقیقت نہیں ہیں تو اس کے لئے پوری طرح سے ہماری حکومت ذمہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ ٹو جی اسپیکٹرم  کے ذریعہ منموہن حکومت نے ہم ہندوستانیوں کے ایک لاکھ ۷۶؍ ہزار کروڑ روپوں کا چونا لگایا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی کل آبادی ۱۲۱؍ کروڑ ہے، اس طرح فی ہندوستانی کا ۱۴۵۵؍ کروڑ روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ذرا سوچئے کہ اگر اتنی موٹی رقم تمام ہندوستانیوں کو مل جائے تو کیا وہ غریب کہلائیں گے؟ کیا ان کے بچے بھوکے پیٹ سوئیںگے؟ کیا ان کے جسم پر چیتھڑے جھولیں گے؟ کیاان کی بیٹیاں شادی کو ترسیں گی ؟ کیا قرض کی ادائیگی سے پریشان کسان خود کشیاں کریںگے؟کیا وہ بچے جنہیں اسکول  جانا چاہئے،  وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہوںگے؟
    نہیں ! قطعی نہیں!! ۱۴۵۵؍ کروڑ روپے بہت ہوتے ہیں۔ اور یہ تو صرف ایک گھوٹالے کی بات ہے۔دولت مشترکہ، آدرش سوسائٹی، غیرملکوں میں جمع کالا دھن اور اسرو اسپیس گھوٹالوں کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے گھپلے ہوںگے، جو ہنوز پردے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سمت سے بدعنوانی کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے، حکومت ناک منہ ٹیڑھے کرنے لگتی ہے۔لوک پال بل کے خلاف کانگریس اگر اتنی ناراض ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔
    حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی بھی کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے باقاعدہ حکومت کو لتاڑ لگائی کہ ’’یہاں دو ہندوستان ہیں‘‘.... ایک جانب جہاں ہر سال ارب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہیں، وہیں اس کی مناسبت سے غریبوں کے نوالے بھی چھن رہے ہیں۔ ایک طرف امبانی  اور ٹاٹا کروڑوں کے سامان کوڑیوں کے بھاؤ خرید رہے ہیں، دوسری طرف عام ہندوستانی راشن کے اشیاء کو بھی ترستا ہے۔ ایک طرف کروڑوں کے گھوٹالے کرنے والوں پر سرکار کی مہربانی ہوتی ہےتو دوسری طرف جیتا پور میں اپنے حقوق اور اپنی بقاکی لڑائی لڑنے والوں پر حکومت ڈنڈے برساتی ہےاور ان کی حرکتوں کو ملک کی ترقی کے خلاف سمجھتی ہے۔ حالانکہ اس معاملے پر بار بار سپریم کورٹ اس کی سرزنش کرتا رہا ہے لیکن حکومت نے جیسے ہوش کے ناخن نہیں لینے کی قسم کھا رکھی ہو۔ ہندوستان بلکہ شاید بین الاقوامی تاریخ میں کسی ملک کی سپریم کورٹ نے کسی حکومت کو اتنی پھٹکار نہیں لگائی ہو گی جتنی ہندوستان میں مودی کی ریاستی اور منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت کو  لگ چکی ہے۔ مودی کو فرقہ پرستی کے لئے اور منموہن سنگھ کو بدعنوانی اور غریبوں کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے لئے۔
    ان حالات میں عوام کے پاس یہی ایک چارہ بچتا ہے کہ وہ حکومت سے اس کی باز پرس کریں۔ انقلاب تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن احتساب ضروری ہے اور جب تک ہم احتساب کرنا شروع نہیں کریں گے،  اسے بدعنوانی سے روکا نہیں جاسکتا۔
    گزشتہ دنوں جس طرح بدعنوانی کے معاملے پر تمام ہندوستانی متحد ہوئے تھے، ایک بار پھر ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت سمجھتی  ہے کہ کچھ دنوں تک ہزارے اوران کی ٹیم کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش جاری رکھی جائے تو عوام کی توجہ لوک پال بل سے ہٹ جائے گی......  اور پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ، عوام سب کچھ بھول جائیں گے۔ لیکن عوام کو یہ بات واضح کردینی ہوگی کہ ہمیں ہزارے اورا ن کی ٹیم سے کوئی ہمدردی ہو ..... یا نہ ہو لیکن ہمیں بہرحال بدعنوانی روکنے اور اس بہانے لوک پال بل سے ہمدردی ہے۔ اگر اس سلسلے میں حکومت نے کوئی تساہلی  برتی، عوام اور ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو عوام اس کا سخت نوٹس لیںگے۔  کیا ہم اب بھی بیدار نہیں ہوںگے؟ آخر وہ وقت کب آئے گا؟

1 comment:

  1. Assalam-o-alaikum
    Sab se pehale Mumbarakbad qubul farmayiye blog shuru karne ke liye. Shahid Bhai aap ne Doctor Sahab ka blog dekha hoga us mein jo fonts istemaal kiye jarahe hai agar waisa kuch ho sake toh bahut accha hoga.

    ReplyDelete