Monday 18 April 2011

حکومت اورہزارےکے درمیان لفظی تکرار میں
 کہیں  پوری تحریک پر پانی نہ پڑ جائے!
گزشتہ دنوںبدعنوانی کے خاتمے کیلئے پورے ملک میں ایک زبردست تحریک چلی جس کے آگے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔لیکن اب معاملہ دوسرا رخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں ہزارے اور ان کے ساتھی اس کا پورا کریڈٹ  اپنے سر لیناچاہتے ہیں..... وہیں حکومت نے بھی اپنے رنگ دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ اس موقع پر عوام کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے.... کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پوری تحریک پر ہی پانی پڑ جائے!
قطب الدین شاہد
انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ۴؍ روزہ بھوک ہڑتال کے دوران اندرون و بیرون ملک جو صورت حال دیکھنے کو ملی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ ایک جانب جہاں یو پی اے حکومت کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی، وہیں دوسری جانب انا ہزارے اوران کے ساتھی خود کو ’’لارجر دَین لائف‘‘ تصور کرنے لگے۔سیاست دانوںسے عوامی برہمی اتنی زیادہ تھی  اور ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا تھا..... کہ اگر وہ سلسلہ دو چاردن اور جاری رہا ہوتا تو .....سیاست دانوں کو اقتدار کے گلیاروںسے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہونا پڑتا۔ خیرحکومت چانکیائی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی.... اور ہزارے کے مطالبات جو پورے ملک کےعوام کے مطالبات کی شکل اختیار کرچکے تھے.... ’تسلیم‘ کرلیا۔ اس طرح دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اپنے قدموں کو سنبھالا دیا اور اپنی بقا کا انتظام کرلیا... مگر ہزارے اوران کے ساتھی اس غیر متوقع کامیابی کو جو پورے ملک کو ملی تھی، اپنی کامیابی سمجھنے کی غلطی کی....اور پھر اس کامیابی کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔نتیجے میں ایسی ایسی غلطیاں ہوئیں،کہ پوری تحریک خاک میں ملتی ہوئی نظر آنے لگی۔بدنام زمانہ وزیراعلیٰ مودی کی تعریف و توصیف اسی نشہ کانتیجہ تھا۔
    ہزارے اور ان کے ساتھیوں میں یوپی اے حکومت جیسی سیاسی بصیرت ہوتی تو حکومت کے ذریعہ مطالبات تسلیم کیے جانے کو وہ اپنی کامیابی تصور نہیں کرتے  اورنہ ہی اس خمار کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے بلکہ اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے لئے آگے کا لائحہ عمل طے کرتےاورعوام کو اپنے ساتھ رکھتے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے تھی کہ حکومت نے شکست تسلیم نہیں کی تھی بلکہ ایک طوفان کو روکا تھا..... وہ ایک ایسا طوفان تھا جہاں اکڑ نے میں نہیں.. جھک جانے میں دانشمندی تھی۔اس طوفان میں اگر وہ انا کا مظاہرہ کرتی تو خش و خاشاک کی طرح  بہہ جاتی اور حسنی مبارک اور زین العابدین کے انجام کو پہنچتی۔ایک طرح  سے وہ اس کا دفاعی ہتھیار تھا جس کا اس نے بخوبی استعمال کیا.... اور اب جبکہ اس کے قدم سنبھل چکے ہیں،اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔ جس طرح کے خدشات کااظہار کیا جارہا تھا، اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ مختلف بہانوںسے  اس تحریک کو کچلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان اراکین کو کبھی غیر سنجیدہ کہا جارہا ہے تو کبھی فرقہ پرست اور کبھی بدعنوان ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    یہ تمام باتیں اگر درست ہوں تب بھی.....حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ تحریک بھلے ہی ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے شروع کی ہو.... لیکن یہ تحریک  ہزارے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے اور عوام و خواص کے ایک بڑے طبقے کی اسے حمایت حاصل ہے۔ دراصل لوگوں کو  ہزارے سے نہیں بلکہ بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے۔ اس لئے حکومت یہ سمجھنے اور سمجھانے کی غلطی نہ کرے کہ ہزارے اوران کے ساتھیوں میں خامیاں ہیں... بلکہ یہ بتائے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے وہ کیا کررہی ہے؟حکومت اگر خود بدعنوانی کے خاتمے کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو جو کچھ ہوا، اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگوںنے انا ہزارے کا ساتھ صرف اور صرف اسلئے دیا کہ وہ بدعنوانی سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ہزارے پر آر ایس ایس کے اثرات نمایاں ہیں، عوام و خواص نے صرف اس لئے حمایت کی، کہ کسی بھی طرح  بدعنوانی کے دیو پر قابو پایا جائے جو روز بروز توانا ہوتا جارہا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی جب کسی خطرناک مرض کی زد میں آتے ہیں .. اور علاج معالجے کی کافی کوششوں کے بعد بھی صحت یاب نہیں ہوتے .....تو اپنی جان بچانے کی خاطر یہ لوگ زندگی بھر اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانے والے جھاڑ پھونک والے باباؤں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ ہزارے اور ان کی تحریک میں کتنے کیڑے ہیں، بلکہ یہ بتانے کی کوشش کرے کہ وہ خود بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہوئی یا نہیں؟ اور  اس سلسلے میں اس کے آئندہ کے لائحہ عمل کیا ہیں؟
     آئیے اب بات کرتے ہیں، حکومت اور اس کی کوششوں پر۔ حکومت نے اُس وقت مطالبات تسلیم توکرلیا تھا لیکن اس کی نیت میں کھوٹ شروع ہی سے تھی..... دراصل مطالبات تسلیم کرنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں تھا..... لیکن اب جبکہ حالات نارمل ہوگئے ہیں،وہ اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔حکومت کو لگتا ہے کہ جس طرح ماضی میں بہت ساری کمیٹیاں اور کمیشنیںوجود میں آئیں، ان کی رپورٹیں اور سفارشات  پیش ہوئیں، کچھ تو یوں ہی سرد خانے میں چلی گئیں اور کچھ پر بحث مباحثے بھی ہوئے .... مگر سبھی کے نتائج ڈھاک کے تین پات ہی نکلے.... بالکل اسی طرح لوک پال بل کے لئے تشکیل دی گئی ڈرافٹ کمیٹی بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔اسی لئے حکومت نوٹی فیکیشن جاری کئے بغیر یعنی غیر رسمی کمیٹی ہی بنانی چاہی تھی لیکن عوامی دباؤ کے آگے اسے جھکنا پڑا تھا۔ کمیٹی میں شامل ۲؍  وزرا کپل سبل اور سلمان خورشید پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیںکہ لوک پال بل سے کچھ نہیں ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اس کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اس نے پہلے ہی سے ذہن بنا لیا ہے کہ اس بل سے کچھ ’فائدہ‘ نہیں ہوگا، تو بیل کیوںکر منڈھے چڑھے گی؟ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں اپنے بیانات کے ذریعہ پر لیپا پوتی کرکے اپنی شبیہ خراب کرلینے والے کپل سبل نےسوال کیا کہ ’’کیا لوک پال قانون سے سبھی کو تعلیم یا پینے کا پانی  میسر ہو گا؟‘‘ حالانکہ ایسا کہہ  کروہ کسی اور کی نہیںبلکہ خود اپنی ہی نااہلی کا اظہار کررہے ہیں ....اس سوال کا جواب تو خود انہیں دینا چاہئے کہ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل انہوں نے کیا کیا؟ یہ ان کی ذمہ داری ہے ، کسی اور کی نہیں۔ دگ وجے کانگریس کے ایک بڑے رہنما  اور آل انڈیا جنرل سکریٹری ہیں۔   ہزارےکے بل میں انہیں بھی  ہزار خامیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوک پال کے دائرے میں صنعت کاروں اور غیر سرکاری اداروں کو بھی لایا جانا چاہئے۔ان سے کہاجاسکتا ہے کہ حضور حکومت آپ کی ہی ہے، آپ کو مشورہ دینے کی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کس نے منع کیا ہے آپ کو؟کچھ بھی کیجئے لیکن بدعنوانی کو روکئے... جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔
    کچھ لوگوں کو انا ہزارے کا طریقہ پسند نہیں آیا۔ وہ لوگ اسے بلیک میلنگ کا نام دیتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اور کون سا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اور  اگر یہ بلیک میلنگ ہے تووہ بتائیں کہ تحریک آزادی کے رہنماؤں کے بارے میں وہ کیارائے رکھتے ہیں؟ انگریز حکومت  سے اپنی بات منوانے کیلئے کم و بیش اُن کے طریق کار بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ بعض لوگوں کو لوک پال میں آمریت کی بو آتی ہے۔اگر ایسی بات ہے تو اس پر ڈرافٹ کمیٹی میں ضرور تبادلہ خیال ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ انا ہزارے اوران کی ٹیم آمریت کے حق میں نہیں ہے۔جن لوک پال بل کے متعلق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قانون سازی، قانون سازوں کا کام ہے،عوام کا نہیں... وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ انقلاب تبھی آتا ہے جب قانون ساز اپنی ذمہ داریوںسے پہلو تہی کرنے لگتے ہیں.. اور جب انقلاب آتا ہے تو قانون سازی ہی نہیں پوری عنان حکومت عوام کے ہاتھوں میں آتی ہے۔گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، اسے چھوٹا موٹا انقلاب ہی تو کہہ سکتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی بھی موجودہ صورت حال سے خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کے تئیں نفرت کااحساس پیدا کرنا جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ حیرت ہے!بابری مسجد کی مسماری کی تحریک چلانے ،گجرات میں ہندتوا کی لیباریٹری تیار کرنےاور مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری سمجھنے والے لال کرشن اڈوانی کو بھی سیاست دانوں کے تئیں نفرت  میں اضافے سے تشویش ہے۔
    سیاست داں عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں،  بشرطیہ کہ وہ اپنے اندر اپنی ذمہ داریوں کا ۱۰؍ فیصد بھی احساس پیدا کرلیں۔اگر انہیں عوامی نفرت اور ان کے غیض و غضب سے بچنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ان کے منہ سے نوالے چھیننے کی روش ترک کردیں۔حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں...وہ تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں... کہ عوام بیدار ہوچکے ہیں..... فی الحال و ہ بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں، جیسے بھی اور جس طرح بھی ہو۔ حکومت  کے ذریعہ ہو،  اپوزیشن کے ذریعہ ہو، انا ہزارے کے ذریعہ ہو، یا اور کسی کے ذریعہ۔  اگر اس مرتبہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا.... تو شاید دوسری مرتبہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے۔n

No comments:

Post a Comment