Wednesday 2 August 2023

No Confidence Motion against Modi government by INDIA Alliance

  عدم اعتماد کی تحریک  پیش کرنے کا مقصد سرکار گرانا نہیں ،  اسے بے نقاب کرنا ہے

 اپوزیشن جماعتوں نے اس حربے کا استعمال مجبور ہوکر کیا ہے، وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں  منی پور کے حالات پر تفصیلی بحث اور  وزیراعظم سے جواب  چاہتی تھیں لیکن اکثریت کے زعم میں حکومت نے اس مطالبے کو ٹھکرادیا
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
لوک سبھا میں  ۲۶؍ جولائی کو  عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گوروگوگوئی نے یہ بات واضح کردی تھی کہ ان کے پاس حکومت گرانے کی طاقت نہیں ہے۔  انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ لوک سبھا میں ہماری تعداد کتنی ہے؟ لیکن بات صرف  تعداد کی نہیں ہے۔ یہ تحریک منی پور میں انصاف کی لڑائی کیلئے ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے ہم نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ وزیراعظم مودی منی پور کو بھول چکے ہیں لیکن ’انڈیا اتحاد‘ دُکھ کی  اس گھڑی میںمنی پوری عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم اس معاملے میں ایوان کے اندر وزیر اعظم سے ان کا جواب چاہتے ہیں۔‘‘
حالات حالانکہ مختلف ہیں لیکن اپوزیشن کی اس تحریک نے۱۹۶۳ء کے اُس بیان کی یاد تازہ کردی جو پارلیمنٹ میں جواہر لال نہرو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر جے بی کرپلانی نے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میرے لئے یہ انتہائی افسوس کا مقام ہےکہ مجھے ایک ایسی حکومت کے خلاف قرارداد پیش کرنی پڑ رہی ہے جس میں میرے۳۰؍ سال سے زیادہ پرانے کئی دوست شامل ہیں۔ اس کے باوجود میں اپنے فرائض اور ضمیر کی بنیاد پر حکومت کی جواب دہی کیلئے یہ تحریک پیش کررہا ہوں۔‘‘دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کی طرح اُس وقت کی حکومت نے اس کیلئے اپوزیشن کو طنز وتشنیع کا نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ اس تحریک کا خیر مقدم کیا تھا اور ایوان میں صحت مند بحث  کا موقع فراہم کیا تھا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہاتھا کہ ’’اس طرح کی تحریکوں کے ذریعے وقتاً فوقتاً حکومتوں  کو جواب دہی کے دائرے میں لانا اچھی بات ہے، خاص کر اُن حالات میں بھی جبکہ حکومت کے گرنے کا کوئی امکان نہ ہو۔‘‘ یہ آزاد ہندوستان کی پہلی تحریک عدم اعتماد تھی جس میں حکمراں جماعت نہ صرف اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی بلکہ اعلیٰ اقدار اور سیاسی اخلاق کا ایک ایسا نمونہ بھی پیش کیا  جو بعد والوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوتی لیکن.... آج حالات پوری طرح سے بدل چکے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات کا اب کوئی خاص معنی نہیں۔ افسوس کہ عوام کا  ایک بڑا طبقہ بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپوزیشن کو اپنی طاقت کا اندازہ ہے اور وہ یہ بات جانتی ہے کہ حکومت گرا نہیں سکتی تو اس نے پھر اس راستے کاانتخاب کیوں کیا جس میں اس  کی شکست یقینی ہے۔ اس سوال کاکچھ کچھ جواب آر  جے ڈ ی لیڈر پروفیسرمنوج جھا اور ادھو گروپ کی شیوسینا لیڈر پرینکا چترویدی کے بیان  سے مل جاتا ہے۔ الگ الگ بیان میں دونوں لیڈروں نے واضح کیا ہے کہ حزب اختلاف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ منی پور  کے معاملے پر مودی حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کااحساس دلائے۔ پروفیسر منوج جھا کہتے ہیں کہ ’’اس تحریک کے بہانے اگر ہم وزیراعظم کو منی پور معاملے پر بولنے کیلئے مجبور کرسکے تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘کچھ اسی طرح کااظہار خیال پرینکا چترویدی نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعظم پارلیمنٹ   سے دور بھاگتے ہیں، اگر ہم انہیں اس تحریک کے ذریعہ پارلیمنٹ میں لاسکے تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔‘‘  
یہ واقعی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں لانے اور کسی مسئلے پر اُن کی رائے جاننے کیلئے اپوزیشن کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنی پڑرہی ہے۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نئی  لوک سبھا میں وزیراعظم مودی نے مجموعی طور پر صرف ۷؍ مرتبہ بحث میں حصہ لیا ہے۔ ان میں سے پانچ مواقع ایسے ہیں جب  انہوں نے صدر جمہوریہ کے خطاب کے بعد جواب دیا۔ اس کےعلاوہ   ایک بار انہوں نےایودھیا میں رام مندر سے متعلق ٹرسٹ کے قیام کے بارے میں بات کی اور دوسری بار لوک سبھا اسپیکر کے طور پر اوم برلا کی حلف برداری کی تقریب کے دوران گفتگو کی۔
اب جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی ہے اور اسپیکر نے اسے قبول بھی کرلیا ہے،  دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کسے کیا حاصل ہوگا؟  حکمراں محاذ کو معلوم ہے کہ اس تحریک سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، اس کے باوجود اس کے خیمے میں ہلچل ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ اس تحریک پر بحث میں جس قدر ممکن ہو، تاخیر کی جائے،اس دوران وہ پوری ’تیاری‘ کرلینا چاہتی ہے۔قانون کی رو سے اسپیکر کے ذریعہ قبول کرلئے جانے کے بعد۱۰؍ دن کے اندر اندر اس پر بحث لازمی ہے،اس طرح ۴؍ اگست تک اس پر بحث کا امکان ہے جبکہ  پارلیمنٹ کا یہ مانسون اجلاس ۱۱؍ اگست کو ختم ہوگا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر آخرتیاری کس بات کی ہے؟ یہ تو طے ہے کہ حکومت  گرے گی نہیں اور اپوزیشن کامقصد بھی اسے گرانا نہیں ہے۔
   اسے کچھ یوںسمجھاجائے تو شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ تحریک عدم اعتماد نہیں بلکہ لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کا آغاز ہے۔ حکمراں محاذ اور اپوزیشن دونوں ہی اس تحریک کو رائے دہندگان کو لبھانے  اور اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک بہترین موقع تصور کررہے ہیں۔ ان کی نگاہیں ملک میں رائے دہندگان کے اُس طبقے پر ہیں جنہیں  ’غیر جانب دار‘  اور’نظریاتی دباؤ‘ سے آزادکہا جاتا ہے اور جو آخر میں طے کرتا ہے کہ اس کا ووٹ کس جانب ہوگا؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے ووٹرس کی تعداد تقریباً ۱۵؍ سے۲۰؍ فیصد ہے۔ ان میں سے اکثریت کا جھکاؤ جس طرف ہوتا ہے، وہ پارٹی جیت جاتی ہے۔ ہم یہ مان کر چل سکتے ہیں کہ کانگریس کیلئے ۲۰۱۹ء بہت برا دور تھا۔ اُس وقت اسے جو ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے،وہ اس کے وفادارووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اِدھر اُدھر نہیں جاسکتے۔ اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ وہ بی جے پی کا برا دور تھا۔  ۲۰۰۹ء میں کانگریس کو ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے، یعنی بی جے پی سے تقریباً ۱۰؍ فیصد زیادہ۔  یہ۱۰؍ فیصد والا طبقہ ہی وہ ہے جو حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔    ۲۰۱۴ء میں کانگریس کو ۱۹ء۳۱؍ فیصد ووٹ ملے یعنی گزشتہ الیکشن سے ۹ء۲۴؍ فیصد کم جبکہ بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد ووٹ ملے یعنی گزشتہ الیکشن سے ۱۲؍ فیصد زیادہ۔ مطلب صاف ہے کہ مذکورہ ’غیرجانب دار‘ ووٹروں کے اِدھر اُدھر ہونے سے حکومت تبدیل ہوجاتی ہے،اسلئے ساری جماعتیں اس طبقے کی فکر میں رہتی ہیں۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ملک کی تقریباً تمام جماعتوں کو اپنی بات کہنے کا موقع ملے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی باتوں اور اپنے دلائل سے اس طبقے کو کون اور کس حد تک متاثر کرسکتا ہے

2 comments: