Thursday 12 January 2012

Lok pal and political parties

سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

لوک پال بل پر لوک سبھااور راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتیں یہ بل منظور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳؍ برسوںسے یہ بل التوا میں ہے اور پتہ نہیں کب تک رہے؟ 

قطب الدین شاہد
 
  بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک بار پھر لوک پال بل کے ٹھنڈے بستے میں چلے جانے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی لولی لنگڑی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس کمال ہوشیاری کے ساتھ اسے ’ٹھکانے‘ لگایاگیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں  ہے۔بظاہر تو سبھی اس کی حمایت میں بول رہی ہیں لیکن ..... عملاً کوئی بھی اس کے حق میں نہیں،سبھی  اس سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہوا، اس کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ کی نہیںتھی۔  اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کہیں لوک پال کا انجام بھی خواتین ریزرویشن بل جیسا نہ ہو۔ بل کی آئینی حیثیت نہ ہونے اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے کیلئے کانگریس بی جے پی پر الزام لگارہی ہے اور بی جے پی کانگریس پر، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں دونوں کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن.....کیا یہی سچ ہے؟ یا اس بظاہر سچ کے پیچھے کوئی اور سچائی بھی ہے؟ 
    سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے  ایک سرسری نظرلوک پال کی تاریخ پر  بھی ڈالتے چلیں۔لوک پال سنسکرت لفظ سے بنا ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں عوام کا محافظ۔  یہ ایک ایسے عہدے کی تشکیل کا معاملہ ہے جسے سویڈن میں ’اومبڈس مین‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔سویڈن نے اسے ۱۸۰۹ء میں متعارف کرایاتھا جس کا کام شکایت موصول ہونے کی صورت  میں بدعنوانوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بدانتظامی پر بھی نظر رکھنا تھا۔ تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ اومبڈس مین آج دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ ناموںسے جاناجاتا ہے۔ سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک  اور ناروے میں اومبڈس مین کی شناخت اسی نام سے ہے جبکہ برطانیہ میں اسےپارلیمنٹری کمشنر کا نام دیا گیا ہے جو صرف اراکین پارلیمان کی جانب سے موصول ہونے والی شکایتوں کی  سماعت کرسکتا ہے۔  
    وہ ۶۰؍ کی دہائی تھی جب وطن عزیز میں کرپشن کی دخل اندازی کی شدت محسوس کی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے حکومت نے ۱۹۶۶ء میں پہلا ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس کمیشن (اے آر سی) تشکیل دیا جس نے ۲؍ سطحی مشینری تشکیل دینے کی سفارش کی۔  اس سفارش کے تحت مرکز میں لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کا قیام تھا۔ سفارش منظور کی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں اسے چوتھی لوک سبھا میں پیش کیا گیا،جہاں اُسے  ۱۹۶۹ء میں منظوری بھی مل گئی ..... مگر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ دریں اثنا لوک سبھا تحلیل کردی گئی اور اس طرح لوک پال بل اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس بل نے کئی بار ایوان کا منہ دیکھا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اسے گلے لگا کر اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے افسر شاہوں کی طرح اس بل کو اِس ٹیبل سے اُس ٹیبل تک دوڑانے اور اس بہانے عوام کو الجھائے رکھنے کا کام کیا ۔دوسری بار ۱۹۷۱ء اور پھر بالترتیب ۱۹۷۷ء، ۱۹۸۵ء،۱۹۸۹ء، ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء ،  ۲۰۰۵ء اور  ۲۰۰۸ء میں اسے ایوان میں پیش کیا گیا۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ہندوستان کی تقریباً تمام اہم سیاسی  جماعتوں  نے اقتدار کے مزے لوٹے لیکن اس بل کو  پاس نہیں ہونا تھا، نہیں ہوا۔ جب بھی اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا ، اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کردیا گیا یا پھر ’نظر ثانی‘ کے بہانے وزرات داخلہ  کی محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس مرتبہ انا ہزارے کی تحریک کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، مگر افسوس ! کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر سیاسی داؤ پیچ میں عوام کوالجھا دیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کا حشرخواتین ریزرویشن بل کابھی ہوا تھا۔
    لوک پال بل کا انجام دیکھ کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کی منظوری اور اس طرح اپنے اوپر کوئی محتسب نہیں چاہتیں۔ ملاحظہ کریں سیاسی جماعتوں کے مطالبات اور اپنا سر دُھنیں۔ بی جے پی کہتی  ہے کہ وہ  لوک پال کی خواہش مند ہے لیکن اس بل کی نہیں جو حکومت نے پیش کیا ہے بلکہ ایک ’ مضبوط‘ لوک پال بل چاہتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ بایاں محاذ، آر جے ڈی ، سماجوادی اور بی ایس پی نے بھی کیا ہے۔ ترنمول بھی لوک پال کی ’مخالف‘ نہیں ہے لیکن موجودہ بل کے تئیں اس کی رائے بھی اچھی نہیں ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ اس نے لوک پال کو ’مضبوط‘ نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سبھی ’مضبوط‘ لوک پال بل کیلئے ’کوشاں‘ اور اس پر’ متفق‘ ہیں تو لوک پال مضبوط کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ راجیہ سبھا کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کرتے وقت حکومت نے کہا کہ ترمیمات کیلئے اسے ۱۸۷؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جس کے مطالعہ میںکافی وقت لگے گا۔ اس ’کافی وقت‘ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کی موجودہ میعا د میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟.... صرف ۴۳؍ سال۔  ملائم سنگھ یادو نے لوک سبھا میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا  بھی کہ ’’ اس بل میں بہت خامیاں ہیں،جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انا کے خوف سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
    ملائم سنگھ کی اس ’جلد بازی‘ سے متعلق ایک لطیفہ سنا کر ہم اپنی بات ختم کرنا چاہیںگے۔ ایک شخص نے اپنی شادی کے موقع پر ایک ٹیلر کو کوٹ کی سلائی کا آرڈر دیا تھا جو وقت پر تیار نہیں ہوسکا۔ شادی کے دن تھوڑی سی ہنگامہ آرائی ہوئی، دولہے کے گھر والے اور ٹیلر کے مابین’ توتو میں میں ‘ ہوئی اور بات ختم ہوگئی۔ وقت نکل گیا تو دونوں بھول گئے۔ ۳؍ سال بعد دولہے کے بعد یہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ ولیمہ میں کوٹ نہیں پہن سکا تو سوچا عقیقے میں پہن لوں، لہٰذا پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ایک ہفتے میں سِل دے گا مگر حسب سابق تیار نہیں ہوسکا۔  فریقین میں ایک بار پھر بحث مباحثہ ہوا.... اور اس طرح  ایک بار پھر بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔ اس شخص کو کوٹ کی یاد اُس وقت آئی جب بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ اس نے سوچا کہ چلو میں نہیں پہن سکا ، تو میرا بیٹا ہی پہن لے۔ وہ ایک بار پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا اور اس مرتبہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے کر گیا۔ ٹیلر نے پھر وعدہ کرلیا اور کہا کہ اس کے پاس کام تو بہت ہے مگر وہ اس کوٹ کواس بار ضرور سل  دے گا..... مگر وہ وقت آیاتو ایک بار پھر کام ادھورا تھا۔ جب دونوں میں بحث تیز ہوئی تو گھر کے اندر سے ٹیلر کی بہو نے اپنے خسر کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’کتنی بار آپ سے کہا  ہےکہ ارجنٹ کام مت لیا کرو‘‘۔
    کچھ یہی صورتحال ہمارے لوک پال بل کی بھی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہی ہمیں اس کی یاد آتی ہے ورنہ ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اوراس کی اتحادیوں کو یہ کام ’ارجنٹ‘ لگتا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی کابھی   دخل ہے۔ دراصل یہ ہماری بے حسی کا مذاق ہے۔کیا ہم اس کا نوٹس لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟ n

No comments:

Post a Comment