Saturday 16 June 2012

An open letter to politician

عوامی نمائندوں کے نام ایک شہری کا کھلا خط
 
ملک کے پہلے شہری کے انتخاب میں
 شہریوں کی بھی تو کچھ رائے  لیجئے جناب

مکرم و محترم، معزز عوامی نمائندوں کی خدمت میں حقیر و پُر تقصیر ایک ناچیز شہری کا آداب!
    یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ یعنی عوامی نمائندے، ہم یعنی عوام کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں،ہمارے جذبات و احساسات پر متوجہ ہونے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں.... پھر بھی کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ’شایدکہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘.....
     اور کچھ  نہ کہوں تو کیسے؟ خاموشی جہاں ہمارے نزدیک بے ایمانی کی علامت ہے، وہیں طبی نقطہ نظر سے یہ ہاضمے کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔ویسے یہ مسئلہ صرف عوام کا ہے، آپ جیسے خواص کا نہیں، کہ خاموشی  ہی آپ کا خاصّہ ہے۔ آپ تب تک خاموشی میں یقین رکھتے ہیں جب تک کہ آپ کے ذاتی مفاد پر کوئی ضرب نہ پڑے..... اور آپ کے ہاضمے کی تو خیر دنیا قائل ہے.... توپ اور تابوت تک کا پتہ نہیں چلتا۔
    اب جبکہ پرنب مکھرجی کا رائے سینا ہل پہنچنا تقریباً یقینی ہوچکا ہے، کیونکہ تادم  ِ تحریر پی اے سنگما کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نظر نہیں آرہا ہے..... ذرا ۲؍ منٹ کیلئے ٹھہرجائیں، سینے پر ہاتھ رکھیں، ضمیر سویا ہوا ہو، تو  دو چار جھٹکے (تھپکی نہیں) دیں.... اور پھر غورکریں کہ جو کچھ بھی ہوا، یا ہونے جارہا ہے، اس میں عوامی جذبات و احساسات کا کتنا خیال رکھا گیا ہے؟ آپ کے فیصلے کو کتنے فیصد عوام کی تائید حاصل ہے؟  اور یہ کہ جب آپ   دوبارہ ہمارے رو برو آئیںگےتو ہمیں کس طرح  قائل کریںگے؟ یقین جانئے! ان سوالوں پر غور کریں گے تو ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں ہونے کے باوجود بھی پسینے میں نہا جائیںگے اور بے حسی کی عینک لگائے بغیر آپ ہم سے نظریں نہیں ملا سکیںگے۔
    پرنب داد ا کی امیدواری پر ہمیں قطعاًاعتراض نہیں، وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں، قابل ہیں، باصلاحیت بھی ہیں، مگر جس عہدے کیلئے ان کا انتخاب ہونےجارہا ہے، اس کیلئے ان کے مقابلے دیگر دونوں امیدوار یعنی ڈاکٹر عبدالکلام اور سومناتھ چٹرجی زیادہ موزوں ہیں۔یہ عوام کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ درست بھی ہو، اور آپ خواص کی سوچ و فکر سے میل بھی کھائے..... کیونکہ آپ کی فہم و ادراک اور عوام کے شعور میں زمین و آسمان کا فرق ہے... عوام کنوئیں کے مینڈک ہیں، وہ صرف ملک کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ آپ کی فکر کا دائرہ وسیع ہے، آپ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، اپنی پارٹی کے بارے میں سوچتے ہیں، دور اندیش ہوتے ہیں، نرم گرم سب سمجھتے ہیں اور کبھی کبھار ملک کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں۔
    برا مت مانئے!  ہم پرنب دادا کی ایمانداری پر شبہ نہیں کررہے ہیں  اور کرنا بھی نہیں چاہئے....لیکن کانگریس کی ’ دادا گیری‘ پر ضرور شبہ ہورہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ کانگریس کے ایک بہترین ناخدا رہے ہیں۔ جب بھی اس کی کشتی منجدھار میں پھنستی ہے تو پرنب دادا  ہی اسے پار لگاتے ہیں، اور وہ وہی کرتے ہیں جو اُن سے توقع کی جاتی ہے۔ ان حالات میں شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ کہیں اس باوقار عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی ......
    اس کے برعکس سومنا تھ چٹرجی اور ڈاکٹر عبدالکلام اپنی غیر جانب داری سے ہم عوام کا دل جیت چکے ہیں.... شاید اسی لئے وہ آپ کے ناپسندیدہ بھی ہیں۔ آپ بھلا یہ کیونکر چاہیںگے کہ جس عہدے کو ربراسٹامپ کے طور پر آپ نے شہرت بخشی ہو، کوئی اسے بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ آپ نے ان دونوں کی ناقدری کرکے عوام کا دل دکھایا ہے۔
    یقین جانئے! آج اگر  صدر کےانتخاب کی ’آزادی‘  ہمیںمل جائے تو آپ کو پتہ چل جائےگا کہ آپ عوام میں کتنے مقبول ہیں؟ لیکن یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ آج نہیں تو کل آپ کو ایک بار پھر ہمارے سامنے آنا    ہے، تب آپ کو ان سوالوںکا جواب دینا ہوگا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ الیکٹورل کالج کا رکن ہوجانے کی وجہ سے آپ کومن مانی کااختیار مل گیا ہے، نہیں جناب! آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے ووٹوں کی قیمت بھی ہماری بدولت ہے۔یعنی جہاں کی جتنی آبادی ہے، وہاں کے عوامی نمائندے کے ووٹ کی  قدراُتنی  ہی ہے۔ ایسے میں کیا آپ کو ہمیں اس طرح نظر انداز کرنا چاہئے۔ 
    کہاں گئے وہ جو کہتے تھے کہ اس مرتبہ اس عہدے پر کوئی سیاست داں نہیں آنا چاہئے، کہاں گئے وہ جونائب صدر کو صدر بنانے کی وکالت کررہے تھے، اور کہاں گئے وہ جو کسی مسلم کو صدر بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کوبیوقوف بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ پرنب جی تو اس معیار پر کسی طرح پورے نہیں اُترتے۔ پھر ان کی حمایت کیوں؟ کیا اس پر کوئی بحث ہوئی ہے؟ اگر ہوئی ہے تو وہ ہم سے شیئر کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ ہماری بے چینی کو دور کیوں نہیں کیاجارہاہے؟ یا پھر سودے بازی کا معاملہ ہے؟
    جو بھی ہو.... جو ہونا تھا ، ہو چکا! یعنی اب وہی ہوگا جو طے پاچکا ہے،  ضمیر جاگنے یا کسی انقلاب کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی... البتہ اب جو کرنا ہے، وہ  ہمیں یعنی عوام کو کرنا ہے۔ بہرحال ہمیں وہ موقع ملے گا اور جلد ہی ملے گا، بالکل اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ملا تھا۔ یاد ہے نا! کچھ لوگ کہتے تھے کہ بنے گی تو ہماری حکومت، ورنہ صدر راج ہوگا..... پھر کیا ہوا، وہ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی۔

احقر       
قطب الدین شاہد

No comments:

Post a Comment