Saturday 31 March 2012

April fool

اپریل فول: کون بیوقوف بنا اور کس نے بنایا؟
 
قطب الدین شاہد

عالمگیریت اور صارفیت  نے جب زمانے پر اپناشکنجہ کسا تو یوم پیدائش اوریوم وفات سے بات آگے بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے یوم وجود میں آگئے..... جیسے یوم خواتین، یوم بزرگاں، یوم اطفال، یوم دوستی، یوم محبت، یوم آزادی  اور یوم شادی۔ جب سب نے اپنے اپنے دن مخصوص کرلیے تو بیوقوفوں اور احمقوں نے بھی آواز بلند کی کہ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے جو دنیا ہمیں بھول گئی۔یہ مطالبہ یوں بھی ناجائز نہیں تھا کہ اسے یکسر مسترد کردیا جاتا، کم از کم جمہوری ملک میں تو قطعاً نہیں جہاں بندے گنے جاتے ہیں، تولے نہیں جاتے۔ یہاں اکثریت میں رہنے والوں کی ہر بات سنی جاتی ہے، انہیں چھینک بھی آئے تو سیاسی جماعتوں کو زکام ہونے لگتا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ اُن کا حق تھا لہٰذا ’عقل مندوں‘ کا اخلاقی فرض بھی  تھا کہ اس مطالبے پر وہ سنجیدہ ہوں۔ سو اِس کا انتظام کردیا گیا اور بالاتفاق رائے یکم اپریل کی تاریخ طے کردی گئی۔ پوری دنیا میں تو نہیں کہہ سکتے مگرجہاں جہاں جمہوریت اپنے پیر پسارنے میں کامیاب رہی ہے ، وہاں  یہ دن ’دھوم دھام ‘ سے منایا جاتا ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔
     آپ چاہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں تاہم بعض ’عقلمندوں‘ کا خیا  ل ہے کہ یکم اپریل کو چونکہ سالانہ بجٹ کا نفاذ  ہوتا ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سےاپریل فول منایا جاتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ترقی اور شرح نمو کے نام پر تمام نام نہاد حکومتیںعوام کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ قیمتیں فوراً بڑھاتی ہیں اور  سبز باغ دکھاتی ہیں ایک سال بعد کی۔
     اپریل فون کے دن بہت سارے بیوقوف  دیگر  بیوقوفوں کو بیوقوف بنانے کی مہم پر نکلتے ہیں اورآخر میں بیوقوف بن کر گھر واپس ہوتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں تاہم  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کس کو بیوقوف بنایا  بالکل اسی طرح جیسے رائے دہندگان  اور سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے۔
    ویلنٹائن ڈے کی طرح یہ دن بھی اب ہر گھر اور ہر دفتر میں منایا جانے لگا ہے۔  صبح جب دسترخوان پر انواع و اقسام کے ناشتے دیکھا تو سمجھ میں نہیں آیا کہ معاملہ کیا ہے؟ بیگم نے بتایا کہ اپریل فول ہے۔ میںنے کہا کہ اس کا مطلب بھی سمجھتی ہو، انہوں نے کہا،میںتوسمجھتی ہوں اور تھوڑی دیر میںآپ بھی سمجھ جائیں گے۔ اس دھمکی پر بھلاکسے خوف نہیں آئے گا، ہرکسی کا جگر ، جگر مرادآبادی کے جیسا تھوڑے ہی ہے ، لہٰذا لقمہ جہاںتھا ، وہیں رہ گیا۔میری تشویش دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناشتہ کیجئے اور جی بھر کر کیجئے، اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ صبح ہی صبح میری جیب کی تلاشی ہوئی تھی اور اب پرس کی رقم ندارد تھی۔ اتنے  میں دیکھا میاں عبدالرشید بھی اسکول سے واپس آگئے۔ بولے ہیڈمسٹریس صاحبہ چل بسی ہیں،لہٰذا چھٹی ہوگئی ہے۔  مجھے لگا کہ یہ اپریل فول کا ہی حصہ ہے تاہم مزید تحقیق پر معلوم پڑاکہ اس میںجزوی سچائی ہے۔ ہوا یوں کہ بچوں میںسے کسی نے اپریل فول منانے  اور اس بہانے چھٹی  پانے کے مقصد سے ہیڈ مس کو یہ جھوٹی خبر سنادی کہ سکریٹری صاحب  نے دنیا کوالوداع کہہ دیا ہے۔  بیچاری ہیڈ مس اس خبر کی تاب نہیں لاسکیں، سوچی ہوںگی کہ جب ’دلبر‘ ہی نہیں تو دل کس کا م کا، لہٰذادل پر زبردست حملہ ہوا اورتھوڑی دیر میں لوگوں کو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھنا پڑا۔ پتہ چلا کہ تدفین کے بعد ہی سکریٹری صاحب نے اس مسند پرکسی اور کو اس شرط کے ساتھ براجمان کردیا کہ  میرے ’دل‘ کا خیال رکھنا۔ ترقی پانے کے لیے اسطرح کی سودے بازی تعلیمی اداروں میں آج کل عام بات ہے۔ اب اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
     یکم اپریل کو ہمارے دوست لیاقت علی زاہد بھی گھرسے اسی مقصد سے نکلے تھے کہ چلو کسی کو بیوقوف بنایاجائے۔ انہوں نے خود پر یہ شرط بھی عائد کرلی تھی کہ کام ہوئے بغیرگھر واپس نہیںہوںگے، گویا ناتواںکندھوں (دماغ بھی پڑھ سکتے ہیں) پر بہت بوجھ پڑگیا تھا۔ایک صاحب جو فون پرکسی سے بات کررہے تھے اور بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اپنا شکار سمجھ کر انہیں راستے میں ہی روک  لیا اور چہکتے ہوئے کہا  ’’بھائی صاحب ! مٹھائی کھلائیے، آپ کی اہلیہ محترمہ نے جڑواں بچوںکو جنم دیا ہے۔‘‘اس سے قبل کہ زاہد صاحب کچھ سمجھ پاتے، اس نوجوان نے ایک زوردار طمانچہ رسید کردیا۔پتہ چلاکہ وہ اپنی محبوبہ سے عشق و محبت کی باتیں اورمستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا کہ موصوف نے بیوی  اورجڑواں بچوں کا تذکرہ کرکے اس کی قسمت پر سیاہی انڈیل دیا۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر وہ وہاںسے راہ فرار اختیار نہ کرتے تو واقعی گھر جانا نصیب نہ ہوتا۔تھوڑی ہی دور گئے ہوںگے کہ دیکھے آگے آگے ان کا ایک دور کا پڑوسی جارہا ہے۔سوچااسے بیوقوف بنانا چاہئے۔ دوڑ کر پیچھاکیا اور ہانپتے کانپتے بولے کب سے تمہیں تلاش کررہا ہوں،  ارے بھابھی نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے، محلے میں سب تمہارا انتظارکررہے ہیں، جلدی چلو اور ہاں مٹھائی بھی خرید لو۔ زاہد صاحب خیرایک سانس میں تو سب کچھ کہہ گئے لیکن تب تک موصوف کی حالت غیر ہوگئی تھی اوراس سے قبل کہ یہ کچھ سمجھ پاتے، وہ بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچکے تھے۔اسے دواخانے پہنچانے کے بعد انہیں معلوم پڑاکہ ان کا دور کا پڑوسی جب بھی کوئی ناقابل یقین بات سنتا ہے تو اس پراسی طرح کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے ناقابل یقین ہی تھی کیونکہ وہ  ایک عرصہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عمل کررہا تھا، لہٰذا  جڑواں بچوں کا  ’صدمہ‘ برداشت نہیں کرسکا۔
    زاہد صاحب تھکے ہارے پارک میں جاکر بیٹھ گئے کہ کچھ دیر آرام کرلیں پھر اپنی مہم پر نکلیں۔کہتے ہیں کہ ارادے پختہ ہوںتو منزل خود چل کر آتی ہے، سو انہوں نے دیکھا کہ ایک جوڑا گارڈن میںداخل ہورہا ہے۔ان دونوں کو اپنی منزل سمجھ کر زاہد صاحب ابھی ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں پائے تھے کہ دونوں نے کچھ کانا پھوسی کی اور ایک لمحہ کے تؤقف میں اپنی بیوی کو وہیںچھوڑ کر وہ نوجوان ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔غصے سے اس کا چہر ہ لال بھبھوکا تھا، آتے ہی اس نے سوال کیا۔ تمہارا نام کامران ہے؟ان کے ہاں کہتے ہی اس نے ایک زوردار گھونسہ مارا۔پھر دوسرا سوال کیا کہ کیا تم ہی وہ شخص ہو جو شادی سے قبل ہماری بیوی کو چھیڑا کرتے تھے؟ انہوںنے پھرہاں کہا اور پھر زور دار گھونسے کا ضرب پڑا۔وہاں لوگوں نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی شخص مار کھانے کے بعد بھی ہنس رہا ہے اور بے تحاشا ہنستا جارہا ہے۔ وہ تو اچھاہواکہ بروقت میں پہنچ گیا جس کی و جہ سے معاملہ رفع اورنوجوان دفع ہوا ورنہ پتہ نہیں کیاہوتا۔ بعد میںلوگوں کے پوچھنے پر کہ تم مار کھاکر کیوںہنس رہے تھے؟انہوںنے کہا کہ میں تو اپریل فول منا رہاتھا۔یہ پوچھنے پر کہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ’’وہ مجھے کامران سمجھ کرماررہا تھا جب کہ میرا نام لیاقت علی زاہد ہے۔‘‘
    مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ شخص مار کھاکر بھی محض اس لیے خوش ہے کہ اس نے کسی کو بیوقوف بنایا ۔  نظر کا دائرہ وسیع کیا تو دیکھا کہ اسی طرح کی خوش فہمی کا شکار پورا سماج ہے۔خیال آیا کہ جس سماج میں مار کھا کر بھی خوش ہونے والے افراد موجود ہوںگے ، وہاں کے حکمراں بھلا کیونکر ان کی فلاح کی باتیں سوچیںگے، وہ تو مار مار کر ہی انہیں ’خوش ‘ رکھنے کی کوشش کریںگے۔
n

No comments:

Post a Comment