Saturday 14 April 2012

shikast ke baad siyasi jamaton ki khud ehtesabi

انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی جماعتوں کی خود احتسابی

دل بہلانے کا سامان یا عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک اور کوشش

انتخابات بلدیاتی نوعیت کے ہوں یا ریاستی،یا پھر قومی، اکثر دیکھاگیا ہے کہ نتائج ظاہر ہونے کے بعد جہاں فتح یاب ہونے والی جماعت عوام کا شکریہ ادا کرتی ہے اور ان کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کرتی ہے، وہیں شکست خوردہ ٹیم اپنا احتساب کرنےاور شکست کی وجوہات تلاش کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں خلوص ہو۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاںاس کے ذریعہ محض ایک رسم ادا کرتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہو.......یعنی ان کے رویے میں اخلاص شامل ہوجائے تو جہاںجیتنے والی جماعت کو دوبارہ شکست دینا مشکل ہوجائے گا، وہیں شکست خوردہ جماعت کی اقتدار میں واپسی کا راستہ بالکل آسان ہوجائے گا۔  بہار میں نتیش کمار کی اقتدار بحالی اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی اقتدار میں واپسی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

قطب الدین شاہد

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد گزشتہ دنوں کانگریس نے ایک جائزہ میٹنگ طلب کی تھی۔ اصولاً یہ احتسابی میٹنگ لکھنؤ میں منعقد کی جانی تھی لیکن راہل گاندھی کی ایماء پر اس کاانعقاد دہلی میں ہوا۔ اسی طرح بی جے پی نے بھی اپنی شکست کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے ایک میٹنگ طلب کی تھی۔دونوں جماعتوں کی احتسابی اور جائزہ میٹنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں وقت نہیں لگے گا کہ اس کی حیثیت محض ایک رسمی میٹنگ کی تھی، ورنہ کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں نے بھی شکست کے حقیقی اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی ۔باتیں خوب لمبی چوڑی ہوئیں اور بہت ساری وجوہات بھی تلاش کی گئیں لیکن جو مسائل اصل تھے، ان ہی سے چشم پوشی کی گئی۔ ’گرد چہرے پر جمی تھی، آئینہ دھوتے رہے ‘ کے مصداق ان کی پوری مشق اپنے چہرے کو چھپائے رکھنے اور آئینے پر الزام تراشی میں لگی تھی۔ سرسری طور پر دیکھیں توبات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخرکیا سبب ہے کہ شکست کی جن وجوہات سے ہر خاص و عام واقف ہوتا ہے،  سیاسی جماعتوں کے یہ جغادری، ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اور پھرد ور کی کوڑی لاتے ہوئے چند غیر اہم اسباب تلاش کرلئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس پر غور کیا جائےتو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اصل وجوہات کوسمجھنے اور سمجھانے کے بجائے فروعات میں الجھنے اور  الجھانے میں ہی یقین رکھتی ہیں۔  یہ عوام کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے ، اپنی پسند اُن پر تھوپنا چاہتی ہیں، اس لئے سامنے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نئے مسائل کی شناخت کرتی ہیں اور اس طرح شکست کے بعد بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
      تنگی ٔ داماں کے پیش نظرہم  یہاںصرف کانگریس کی احتسابی میٹنگ پرگفتگو کریں گے۔ مذکورہ اجلاس میںکانگریس نے ’آتم چنتن‘ کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کو بنیادی وجہ قرار دیا نیز اسے مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یعنی اگر اترپردیش میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا تو وہ شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میںکانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط تھا جو  اُس وقت اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟ اور اگرمضبوط تھا تو اب کمزور کیوں ہوگیا؟  اصل بات تو یہ ہے کہ شکست کی یہ بنیادی  وجہ ہے ہی نہیں ۔ اگر تنظیمی ڈھانچے میں مضبوطی ہی  اقتدار میں آنے کا پیمانہ ہوتی تو کوئی بھی سیاسی جماعت شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بہتر کارکردگی کیلئےاس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ راہل گاندھی گزشتہ ۵؍ برسوں سے آخر اسی مشن پر تو لگے تھے، پھر انہوں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟   ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے جواب دَہی طے کرنے کی بات بھی کہی لیکن اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی کہ یہ جواب دہی کس طرح کی ہوگی؟
     جواب دہی طے کرنے کا مطلب ہوگا کہ شکست کی ذمہ داری کسی کے سر ڈالی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے ؟ ریتا بہوگنا جوشی پر جو یوپی کانگریس کی صدر ہیں، دِگ وجے سنگھ پر جو یوپی انتخابات کے انچارج تھے یا پھرخود راہل گاندھی پر جنہوں نے پوری انتخابی مہم اپنے کندھوں پر سنبھال رکھی تھی اور بلاشبہ جیت کی صورت میں اس کی مکمل کریڈٹ لینے کے حقدار ہوتے، سلمان خورشید، سری پرکاش جیسوال اور بینی پرساد ورما پر، جو مرکزی وزیرہیں اور جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اہم کردار نبھایا تھا، پی چدمبرم پر جنہوں نے بٹلہ ہاؤس معاملے میں دگ وجے سنگھ کو جھٹلانے میں نہایت سرعت کا مظاہر ہ کیا  تھا، کانگریس صدر سونیا گاندھی پر یا پھر وزیراعظم منموہن سنگھ پر ، جن کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے  رائے دہندگان اُن سے دور رہے؟
    ہمیں اندازہ ہے کہ جواب دہی کی بات میٹنگ میں ضرور آئی ہوگی مگر سرسری طور پر، یعنی ان تمام ناموں کا تذکرہ وہاں قطعی نہیں ہوا ہوگا..... کیونکہ اگر ان ناموں پرتذکرہ ہوتا تو حقیقی مسائل خود بخود  سامنے آجاتے۔  یہ بات ہم ، آپ اور سب جانتے ہیںکہ کانگریس کی شکست میں ان تمام ناموں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریتا بہوگنا جوشی، مایاوتی بننے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول بیٹھی تھیں۔ان میں عوام کو متاثر کرنے جیسی کوئی بات نظر ہی نہیں آئی۔ دگ وجے سنگھ صرف بیان بازی میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ میڈیا میں سنگھ پریوار پر خوب نشانہ لگاتے ہیں لیکن پارٹی کے اندر خاموش رہتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس معاملے میں یہ بھرم پوری طرح کھل گیا۔ راہل گاندھی نے انتخابی دنوں میں اینگری ینگ مین کا کردار نبھایا، جسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ عوامی نمائندگی کم ،فلموں کی ریہرسل  زیادہ کررہے ہیں۔ دریںاثنا بینی پرساد ورما، سلمان خورشید اورسری پرکاش جیسوال جیسے سنجیدہ قرار دیئے جارہے لیڈروں کی غیر سنجیدگی بھی کھل کرسامنے آئی، وہ خواہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات ہو یا صدر راج کی دھمکی کا معاملہ رہا ہو۔ اسی طرح مہنگائی اور مرکزی حکومت کی دیگر عوام مخالف پالیسیوں نے بھی اقتدار تک پہنچنے سے کانگریس کا راستہ روکا........ لیکن ہمیں اندازہ ہی نہیں بلکہ پورایقین ہے کہ مذکورہ احتسابی میٹنگ میں ان سب  باتوںکا  تذکرہ بالکل بھی نہیں ہوا ہوگا۔ 
     دراصل شکست کے بعد آئینہ دیکھنے کی طاقت صرف کانگریس ہی کیا، کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت میں نہیں ہواکرتی۔ آئینہ دیکھنے کا مطلب ہوگا، اپنی غلطیوں کااعتراف، اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کا مطلب ہوگا ، آئندہ اس کی تصحیح...... کیا ہم کانگریس جیسی ڈھیٹ جماعت سے اس کی توقع کرسکتے ہیں، جو مودی اور شیوراج سنگھ چوہان جیسوں کو گوارا کرسکتی ہے لیکن  ملائم سنگھ، مایا وتی، نتیش کمار، لالو پرساد،   پرکاش سنگھ بادل، بدھادیب بھٹاچاریہ اور محبوبہ مفتی جیسوں کو نہیں کیوں کہ یہ سب علاقائی جماعتوں کے لیڈر ہیں اور بی جے پی کی طرح کانگریس بھی چاہتی ہے کہ ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام قائم ہو۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی تھیں، ورنہ فی الحال ہمارا موضوع اترپردیش کی شکست کے پس منظر میں کانگریس کا محاسبہ ہے۔
     اترپردیش میں کانگریس کی شکست کی بنیادی وجہ  یوپی کے تئیں  کانگریس کارویہ اور مرکزی حکومت کی مجموعی ناقص کارکردگی رہی ہے۔ کانگریس اگر حقیقی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی تو اسے اندازہ ہوتا کہ یوپی کے عوام، روزگار،  خود داری اور سیکوریٹی چاہتے ہیں۔ روز گار کی تلاش میں ممبئی آنے والوں کے ساتھ ایم این ایس کی ہنگامہ آرائی اور اس پر مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومت کی مجرمانہ خاموش رہی،  اسی طرح بٹلہ ہاؤس معاملے پر کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومتوں  کے اعتماد شکن رویے سے یوپی کے مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں کافی غم و غصہ پایا جارہاتھا۔ انتخابی مہم کے دوران حالانکہ کانگریس نےاس کا وعدہ کیا تھا، لیکن چونکہ اسی طرح کاوعدہ سماجوادی پارٹی نے بھی کیا تھا، لہٰذا رائے دہندگان نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا۔ کانگریس اگر تجزیہ کرنے بیٹھی تھی، تو ا سے اس پر غور کرناچاہئے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اس کا تجزیہ کرتی تو  ضرورکسی نتیجے پرپہنچ پاتی۔

No comments:

Post a Comment