Wednesday 22 February 2012

UP election men record polling

اترپردیش میں ریکارڈ پولنگ

عوام کی بیداری سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام


 اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ قرعۂ فال کس سیاسی جماعت کے نام نکلے گا لیکن اتنا تو بہرحال طے ہے کہ رائے دہندگان نے اپنے حق کا مناسب استعمال کرکے اپنی بیداری کااعلان کردیا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔دعویٰ کوئی خواہ کچھ بھی کرے ، مگر سچائی یہی ہے کہ عوام کے تیور کو دیکھ کر سیاسی جماعتیں خوف زدہ ہوگئی ہیں
قطب الدین شاہد


 یوپی کے راج سنگھاسن پرکون براجمان ہوگا؟ابھی اس پرحتمی رائے نہیں دی جاسکتی، صرف قیاس آرائی کی جاسکتی ہے؟ ممکن ہے کہ6؍ مارچ کو مطلع تھوڑا صاف ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے میں اس کے بعد ہفتہ، عشرہ، مہینہ یا5؍ 6؍ ماہ بھی لگ جائیں جیسا کہ2002ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہوا تھا۔قارئین جانتے ہیں کہ 2002ء کے انتخابی نتائج نے معلق اسمبلی کی تصویر پیش کی تھی جس میں سب سے بڑی جماعت کے طورپر سماجوادی پارٹی  ابھر کر سامنے آئی تھی لیکن مرکز میں قائم این ڈی اے حکومت کے نامزدکردہ گورنر وشنو کانت شاستری نے کسی سیاسی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دینے کیلئے اُس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ بی جے پی اور بی ایس پی میں حکومت سازی کیلئے مفاہمت نہیں ہوگئی۔ یوں بھی یوپی میں اب تک 9؍ مرتبہ صدرراج کا نفاذ ہوچکا ہے لہٰذا اگر ایک بار پھر گورنر کے بہانے مرکز حکمرانی کرنے پر آمادہ ہوجائے تواسے بھلاکون روک سکتا ہے؟کانگریس کے بڑبولے اور غیر سنجیدہ قرار دے دیئے گئے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے اس منشا کااظہاربھی تو کر دیا ہے۔ 
    نتائج ظاہرہوں گے تو کیا ہوں گے اور کس طرح کی تصویر بنے گی، اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں عوامی رجحان کیا ہے؟اترپردیش کے رائے دہندگان بارہا اس بات کا ثبوت دے چکے ہیں کہ وہ ووٹنگ کرتے وقت اپنے شعور کا بہتر استعمال کرتے ہیں۔ ان سطروں کی تحریر تک4؍ مرحلوں کی پولنگ ہوچکی ہے ؟ فی الحال ابھی اس بارے میںکچھ نہیں کہا جاسکتا کہ قرعۂ فال کس سیاسی جماعت کے نام نکلے گا لیکن اتنا تو بہرحال طے ہے کہ رائے دہندگان نے اپنے حق کا مناسب استعمال کرکے اپنی بیداری کااعلان کردیا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔دعویٰ کوئی خواہ کچھ بھی کرے ، مگر سچائی یہی ہے کہ عوام کے تیور کو دیکھ کر سیاسی جماعتیں خوف زدہ ہوگئی ہیں۔یہ پہلا موقع ہے جب اتنی کثیر تعداد میں یوپی کے رائے دہندگان نے اپنے نمائندوں کے انتخاب کیلئے اس قدر جوش و خروش کا مظاہرہ کیاہے۔اس سے قبل بابری مسجد کی شہادت کے بعد1993ء میںیوپی میں کچھ اسی طرح کے جوش وولولے کا نظارہ دیکھنے کو ملا تھا جب57.13؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ ابھی تک4؍ مرحلو ں میں یوپی کے70؍ اضلا ع میں سے40؍اضلاع پر مشتمل226؍ اسمبلی حلقوں میں پولنگ ہوچکی ہے جہاں اوسط 59؍ فیصد پولنگ درج کی گئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ پہلے مرحلے کی پولنگ کے دوران سردی کی  شدت کے ساتھ ساتھ بارش نے بھی راستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن رائے دہندگان نے چونکہ طے کررکھا تھا، لہٰذا ان کاعزم متزلزل نہیں ہوا اورا نہوںنےپولنگ بوتھ کا رخ کرکے اپنی فہم و فراست کا ثبوت دیا۔عوام کے اس جوش و خروش سے یوں تو تمام سیاسی جماعتیں حیران و ششدر ہیں لیکن حکمراں جماعت بی ایس پی سب سے زیادہ گھبرائی ہوئی ہے۔بلاشبہ اس کا ایک مضبوط ووٹ بینک ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ دیکھ کر سہمی ہوئی ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال کرنے کیلئے گھروں سے نکلنے والوں میں ا ن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جن پر وہ زیادہ اعتماد نہیں کرسکتی۔ یوں بھی جب جب اور جہاں جہاں پولنگ زیادہ ہوئی ہے،ان میں سے بیشتر کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں کہ حکومت کی مخالفت میںہی ایسا ہوا ہے۔بسا اوقات اپوزیشن کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے بھی عوام اپنے حق رائے دہی کا بہتر استعمال کرتے ہیں ، جیسا کہ2009ء کے پارلیمانی الیکشن میں دیکھنے میں آیا تھا لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ۔ کم از کم یوپی میں اپوزیشن بیزاری کی ایسی کوئی صورتحال نظرتو نہیں آرہی ہے۔
    یوپی میں کبھی زیادہ پولنگ نہیں دیکھی گئی۔ وہاں ایک عرصے تک کانگریس کی ہی حکومت رہی ہے ۔ اپوزیشن مضبوط نہ ہو تو عوام کی دلچسپی بھی کم ہوجاتی ہے لیکن جب89ء میں جنتادل کی صورت میں انہیں کانگریس کے مقابلے میں کوئی نظر آیا تو51؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔1991ء میں جنتادل بکھر گیا اور اس کی جگہ سماجوادی نے لی تھی۔ اس مرتبہ48.51؍ فیصد پولنگ درج گئی تھی۔ 1996ء اور2002ء میں بالترتیب 56؍ اور54؍ فیصد کے آس پاس پولنگ ہوئی تھی۔2007ء یعنی گزشتہ انتخاب میں ایک بار پھر عوام مایوس نظر آئے لہٰذا پولنگ بوتھ کا رخ نہیں کیا تھا۔ اس مرتبہ46؍ فیصد لوگوں نے حق رائے دہی کااستعمال کیا تھا۔ چونکہ بی ایس پی کا اپنا ایک ووٹ بینک ہے، لہٰذا مجموعی طور پر عوام کی اس بے رخی کا فائدہ بی ایس پی کو پہنچا تھا۔ دوسری طرف سماجوادی پارٹی سے مسلمانوں کی بیزاری اور برہمنوں کا بی ایس پی کے ساتھ اتحادکے تجربے سے بھی مایاوتی کو کافی فائدہ پہنچا تھا۔
    مگر اس مرتبہ صورتحال ویسی نہیں ہے، جیسی2007ء میں تھی۔2009ء کے پارلیمانی انتخابات میںاس کی ایک جھلک دیکھی جاچکی ہے، لوگوں نے دیکھا کہ بی ایس پی کا سوشل انجینئرنگ والا فارمولہ ناکا م ہوچکا ہے۔موجودہ صورتحال میں مزید تبدیلی ہے۔ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کی وجہ سے کانگریس بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نظر آتی ہے، اس کی وجہ سے وہ کچھ بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔ دگ وجے سنگھ ہوں یا راہل گاندھی یا پھر سلمان خورشید، یہ سب کانگریس کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کی جڑیں کھودنے کا کام کررہے ہیں۔ راہل گاندھی سے بہت امیدیں تھیں، مگر لیڈر کے بجائے اداکار کی امیج لے کر میدان میں اُتر رہے ہیں۔ دبی زبان میں لوگ سوال کرتے ہیں کہ راہل گاندھی جتنی باتیں یوپی کے انتخابی جلسوں میں کررہے ہیں، ان کا عشر عشیر بھی اپنی پارٹی کی میٹنگوں میں کریں تو یوپی کا تخت و تاج بڑی آسانی سے ان کی جھولی میں آگرتا۔ وہیں بدعنوانی بالخصوص کشواہا  نے بی ایس پی کے ساتھ بی جے پی کا بھی بیڑا غرق کردیاہے۔ ان تمام میں سماجوادی کی پوزیشن اندھوں میں کانا راجا سی ہے۔ کلیان سنگھ سے چھٹکا رہ پانے، اس معاملے پر مسلمانوں سے معافی مانگ لینے اور اعظم خان کی واپسی سے اس کی پوزیشن میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیس پارٹی اور علماء کونسل جیسی جماعتوںسے سب سے زیادہ نقصان اسے ہی پہنچنے کا امکان ہے۔
     یوپی میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد تقریباً20؍ فیصد  ہے جن میں سےایک بڑی تعداد ملائم سنگھ کے ساتھ ہے، کچھ کانگریس کے ساتھ اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ بھی جاسکتے ہیں۔ برہمن ووٹوںکی تعداد 15؍ فیصد ہے جس پر کانگریس اور بی جے پی کا قبضہ ہوگا۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق بی ایس پی نے گزشتہ انتخاب میں 12؍ فیصد برہمن ووٹ حاصل کیا تھا لیکن اس مرتبہ ایک دو فیصد پر ہی اسے قناعت کرنا پڑے گا۔یوپی میں دلت رائے دہندگان20؍ فیصد ہیں جو حسب سابق مایاوتی کے ساتھ رہیں گے۔اس کے بعد بچتے ہیں 45؍ فیصد پسماندہ ذات کے رائے ووٹرس، اور یہی طے کریںگے کہ مسندِ اقتدار پر کسے پہنچانا ہے۔
    واضح رہے کہ دلتوں کی طرح ان ووٹوں پر مایاوتی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ کسی زمانے میں جب کلیان سنگھ یوپی میں بی جے پی کی سربراہی کرتے تھے، ان ووٹوںپر اپنا حق جتاتے تھے اور انہیں خاطر خواہ ووٹ ملتے بھی تھے ۔ کچھ ووٹ سماجوادی کی جھولی میں گرتے تھے اور اب بھی اسے ہی ملیںگے۔ملائم سنگھ نے ان تمام ووٹوں کو پانے کی لالچ میں ہی کلیان سنگھ کو اپنے آغوش میں لینے کی غلطی کی تھی ، مگر نتیجہ اس کے برعکس ہوا، وہ مسلم ووٹوں سے  بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جاٹ، یادو، کرمی اور لودھ جیسی ذات کے ووٹوں پر کبھی کانگریس کا قبضہ نہیں رہا۔ کسی زمانے میں کانگریس برہمن، مسلم اور دلت ووٹوں کے بل بوتے پر اقتدار پر قابض رہا کرتی تھی مگر اب وہ ان میں سے کسی کو نہیں کہہ سکتی کہ وہ اس کے ساتھ ہیں۔ برہمن کانگریس سے زیادہ بی جے پی کو پسند کرتے ہیںجبکہ راہل گاندھی کی لاکھ کوششوں  اور ان کے گھر جاکر کھانا کھانے کے بعد بھی دلت مایاوتی کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ مسلمانوں میں کانگریس نے اپنی امیج اتنی خراب کرلی ہے کہ وہ اسے مجبوری کا سودا سمجھتے ہیں یعنی جہاں کوئی اور متبادل نہیں ہوگا، وہاں کانگریس کو ووٹ دیںگے۔ کانگریس بھی یہ بات سمجھتی ہے ،اسی لئے وہ بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست جماعتوں سے ٹکرانے کے بجائے دیگر سیکولر طاقتوں کو ختم کی زیادہ کوششیں کرتی ہے۔
     یوپی کے اقتدارسے کانگریس کی بے دخلی کوایک عرصہ گزر چکا ہے۔ حالانکہ اس کی وہاں جلد واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے لیکن کوشش کی جائے تو کیا نہیں ہوسکتا۔اس کیلئے اسے جو میسر ہے یعنی مرکزی حکومت، اس کے ذریعہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرنی ہوگی اور تمام طبقات کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment