Saturday 12 May 2012

President election 2

صدر جمہوریہ کے انتخاب  میں
اتنی خاموشی کیوں، اتنی رازداری کیوں؟

  ۱۲۱؍کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کیلئے آئندہ ماہ ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جانا ہے مگر ہم  ہندوستانیوں کو  ہنوزیہ بھی پتہ نہیں کہ اس باوقار عہدے کیلئے  امیدوارکون کون ہیں؟  سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں غیرمعمولی رازداری برتی جارہی ہے۔بلاشبہ اس عہدے کیلئے عوام کو براہ راست ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہے لیکن ان خواص کو جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ وہ کتنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان حالات میں اس عمل سے عوام کو بالکل بے خبر رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ او ر اگر پھر بھی بے خبررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنے نمائندوں سے جواب طلب کریں۔ 

قطب الدین شاہد

    ۲۴؍ جولائی کو ملک کی ۱۲؍ ویں صدرجمہوریہ پرتیبھا تائی پاٹل کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے۔اس سے قبل نئے صدر کا انتخاب ہوجانا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جون کے آخری یا جولائی کے پہلے ہفتے تک اس باوقار اور آئینی عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت کاانتخاب کرلیا جائے گا....
    یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ یعنی وقت رہتے صدرکاانتخاب کرلیا جائے گا، کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا لیکن.... اس معاملے میںجس طرح کی پیش رفت ہے، کیا مناسب ہے؟  ایک ماہ کا قلیل عرصہ باقی بچا ہے لیکن ابھی تک ہم ہندوستانیوں کے سامنے مطلع صاف نہیں ہے کہ اس عہدہ ٔجلیلہ پر کون فائز ہوگا؟ ہندوستان کی دو بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی  اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں بھی کانا پھوسی سے کام چلارہی ہیں۔ کوئی کھل کر نہیں کہہ رہا ہے کہ ان کی جانب سے اس عہدے کیلئے کون امیدوار ہے اور وہ کیوں ہے؟ اس پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے۔کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کو گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ تحریک تو چل رہی ہے اور بہت زور شور سے چل رہی ہے لیکن نہایت خاموشی سے.... رازداری کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط بچھادی گئی ہے، چالیں چلی جارہی ہیں،سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہورہی ہیں،شہ اور مات کا کھیل  جاری ہے مگر عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پارہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اُتنی ہی باتیں ’لیک‘ ہوتی ہیں، جتنی کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔اس پورے عمل میں عوام کو کہیں سے شریک کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ فریب نہیں ہے؟
     بلاشبہ ملک کے پہلے شہری کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس عہدے کاانتخاب بالراست عوام ہی کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ووٹ دینے والے عوامی نمائندگان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پرطے ہوتی ہے کہ وہ کتنے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ اس پورے عمل میں عوام کو شریک کیا جائے، ان سے مشورے طلب کیے جائیں، ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےاور اس کی بنیاد پر ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جائے؟ مگر افسوس کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عوام کو کوسوں دور رکھاجاتا ہے، ان سے رائے مشورہ طلب کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، ان کی پسند نا پسند کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ وقت رہتے کسی امیدوار  کے نام کااعلان اسی لئے نہیں کیا جاتا کہ کہیںانہیںعوام کی ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔اندر ہی اندر کھچڑی پکائی جاتی ہے اور پھر ایک دن  ۱۲۱؍ کروڑ ہندوستانیوںکو بتادیا جاتا ہے کہ یہ ہیں تمہارے نئے صدر، ان کااحترام کرو، ان کی تکریم کرو۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ عمل جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟کیا یہ ہم عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ کیا اس پر ہمیں سیاسی جماعتوںسے جواب طلب کرنے کا حق نہیں ہے؟
      دراصل  وطن عزیز میں اس عہدۂ صدارت کو نمائشی عہدہ بناکررکھ دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس اہم اور آئینی عہدے پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو انہیں اس بات کا احساس دلانے لگے کہ وہ ۱۲۱؍کروڑ ہندوستانیوں کا نمائندہ ہے، ملک کی افواج کا کمانڈر ہے ، مخصوص حالات میں کسی بھی حکومت کو برخاست کرنےاور کسی نئی حکومت کو حلف دلانے کااختیار رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس عہدے پر کوئی ایسا شخص ہی بیٹھے جو اُن کے حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرے، اپوزیشن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے، جہاں تک ممکن ہو آنکھیں بند رکھے اور ضرورت پڑے تو ان کا دفاع بھی کرے۔
     ہونا تو یہ چاہئے کہ وقت رہتے سیاسی جماعتیں اس عہدے کیلئے  اپنے  اپنےامیدواروں کا اعلان کردیں اور یہ بتائیں بھی ....کہ انہوں نے کن بنیادوںپر یہ فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام میں اس پر بحث ہوسکے اور ملک کو ایک بہتر صدر مل سکے، لیکن .... کیا ہماری سیاسی جماعتیں ایسا کریںگی؟

No comments:

Post a Comment