Monday 26 September 2011

Shaadiyon men khurafat




شادی میں رسم و رواج کے نام پر خرافات و بدعات کا خاتمہ ، وقت کی اہم ضرورت
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود ا پنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
قطب الدین شاہد
شادی ایک ایساسماجی فریضہ ہے جسے مذہبی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اس کے طریقے متعین کردیئے ہیں،جس کی مناسبت سے اس کے ماننے والے شادی اور اس کے رسوم انجام دیتے ہیں۔ بعض ممالک نے بھی اس کیلئے رہنمایانہ خطوط اور قوانین  وضع کیے ہیں ۔شادی کے رہنمایانہ خطوط اور اس کے طریقے متعین کرنے کے پس پشت  جوواحد وجہ ہے، وہ یہ  کہ اس سماجی فریضہ کی ادائیگی کیلئے کسی کو کوئی دشواری درپیش نہ ہو۔ یوں بھی شادی کے لغوی معنیٰ خوشی کے ہوتے ہیں لہٰذا طریقے وضع کرتے ہوئے  مذاہب و ممالک کے پیش نظر یہی بات رہی  ہےکہ ان کے پیروکاروں اورشہریوں کو اس رسم سے حقیقی خوشی میسر ہو....لیکن  اب یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا موجودہ سماج میں جس طرح کی شادیاں انجام پاتی ہیں، اس سے فریقین کو واقعی خوشی ہوتی ہے؟
    عصر حاضر میں شادی ایک بوجھ بن کر رہ گئی  ہے  وہ خواہ مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ ، عیسائی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں۔ سماج کے خرافاتی رسم و رواج  کے مضبوط شکنجے سے سبھی کراہ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک اور دیگر مذاہب میں شادی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اس پرگفتگو نہ کرتے ہوئے فی الحال ہم صرف برصغیر  بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی بات کریںگے جہاں کے رسم و رواج تقریباً یکساں ہیں۔یہاںرسم و رواج کا شکنجہ اس قدر مضبوط ہے کہ  مذہب کی رٹ لگانے والے حتیٰ کہ مذہب کی روزی روٹی کھانے والے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے اور اگر زیادہ سچائی سے کام لیاجائے تو یہ کہ آزاد ہی نہیں ہونا چاہتے۔ ان موقعوں پر جب وہ ان رسوم کا ایک حصہ ہوتے ہیں، اُن سے شادی سے متعلق مذہبی مسئلے پرگفتگو کی جا ئے تو نظریں چرانے یا پھر بات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ دال میں نمک یا پھر اس سے بھی کم تعداد میں ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ  ہاں یہ غلط ہورہا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں اور یہ کہ  اسے روکنے کیلئے ہم  نے  اپنے یہاں ہونے والی شادی کے موقع پر ’یہ ‘ کیا تھا۔
    رسم و رواج کے نام پر جاری ان خرافات و بدعات کے خاتمے کیلئےگزشتہ دنوں بھیونڈی میں سرکردہ شخصیتوں کی ایک مشورتی میٹنگ طلب کی گئی تھی،جس میں سابق ریاستی وزیر، رکن اسمبلی،  ائمہ مساجد،قاضی صاحبان، تمام مسالک کے اہم ذمہ داران،ملی، تعلیمی اور سماجی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ دانشوران قوم  اور ڈاکٹروں، انجینئروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔نصیر احمدمومن کے دولت کدے پر منعقد ہ اس میٹنگ میں جس طرح ایک مختصر سی نوٹس پر احباب جمع ہوئے ،اس سےحبس زدہ کمرے میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے جیسی فرحت اور تازگی کا احساس پیدا ہوا۔بہت ساری تجاویز کے ساتھ جب دوسری میٹنگ تک کیلئے اس روز کی مجلس کےملتوی ہونے کااعلان ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ انشاء اللہ آئندہ چند برسوں میں بھیونڈی ملک کے دوسرے علاقوں اور خطوں کیلئے قابل تقلید نمونہ بن کر سامنے آئے گا۔ 
    آئیےدیکھتے ہیں کہ یہ رسم و رواج جو خرافات کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں،کس حد تک ہیں ، کیوں ہیں اور اس کے تدارک کی کوششوں میں ہم ناکام کیوں ہیں؟آج ہمارے سماج میں شادیوں کو اتنامشکل اور مہنگابنا دیا گیا ہے کہ یہ ایک سماجی اورقومی مسئلہ بن گیا ہے اوران تمام مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ جہیز ہے۔ جہیز کی وجہ سے  وطن عزیز کی بہت ساری لڑکیاں  اپنا گھر بنانے  اور بسانے میں ناکام ہیں۔اسے شادی کا ایک لازمی جز بنادیا گیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کا متوسط اور اس سے کمزور طبقہ شادی کے نام سے ہی خوف زدہ  ہوجاتا ہے، اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو جشن کے بجائے لوگ اسے پُرسے اور تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ جس گھر میں دو چار لڑکیاں ہوتی ہیں، جوں جوں اُن کی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے، والدین کے ساتھ دیگر اہل خانہ کی راتوں کی نیند  اوردن کا چین غائب ہوتا جاتا ہے۔
     زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیے جانے کا رواج تھا  لیکن اس کی وجہ جہیز نہیں تھی بلکہ کسی کو داماد بنانا ذلت تصور کیا جاتاتھا لیکن آج جہیز کی وجہ سے ایک بار پھر اس رسم کا اعادہ کیاجانے لگا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زندہ درگور کیے جانے کی بجائے اب قبل از پیدائش ہی اس بچی کا قتل کردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جہیز کے تدارک کے لیے حکومت ہند نے بھی سخت قوانین مرتب کیے ہیں اور یہاں آباد تمام مذاہب کے لوگ بھی یک زبان ہوکر اسے غلط قرار دیتے ہیں مگر افسوس کہ یہ رسمیں روز بروز ہمارا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں۔
    برصغیر میں ہونے والی شادیوں پر ہندورسم و رواج کا غلبہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں کہ ان شادیوں میں انجام دیئے جانے والے رسوم ان کے مذہبی عقیدے ہیں۔ نہیں بلکہ اس کا راست تعلق سماجی حالات سے رہا ہے جسے بعد کی نسلوں نے اچھا برا سمجھے بغیر بعض نے من و عن تو بعض نے معمولی ترمیم کے ساتھ قبول کرلیا ہے۔  اس میں منگنی، بارات، ہلدی مہندی، منہ دکھائی،الوداعی اور نہ جانے کیا کیا رواج ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ ہماری شادیوں میں جہیز کے بعد دوسری سب سے بڑی لعنت بارات اور انہیں کھلائے جانےوالے کھانوں اور پکوانوں کی ہے۔وطن کے بعض گوشوں میں اگر جہیز کے نام پر مطالبہ کا تصور نہیں ہے  یا کم ہے ، تو وہاں بارات ایک بڑا مسئلہ ہے اوراس کی وجہ سے لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوںکی حالت خراب رہتی ہے۔شادی میں صورت اور سیرت کو آج ثانوی   بلکہ اس کے بعد کی حیثیت دی جاتی ہے۔ پہلے جہیز پر بات ہوتی ہے اوراس کے بعد بارات کی تعداد اوراس کی خاطر مدارات پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ میزبان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو کس طرح کا کھانا کھلائے اوران کی کس طرح خاطر تواضع کرے؟ اس کیلئے ہم سب اور   وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جو اس کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے ہیں۔
    کہاجاتا ہے کہ بارات کا طریقہ ہم نے ہندوؤں سے اخذ کیا ہے لیکن  یہ بھی ان کا مذہبی طریقہ نہیں ہے بلکہ اس رسم کو انہوں نے راجپوتوں سے مستعار لیا ہے۔ راجپوتوں میں شادی کا تصور یہ تھا کہ جس کو جہاں کوئی لڑکی پسند آجائے، وہ وہاں پر حملہ آور ہوتا تھا اور طاقت کے بل پر اسے اُٹھا لاتا تھا۔یہاں اسی رسم کا احیاکیا گیا ہے۔ اسی لیے دولہے کو گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے اوراس کے ساتھ بارات کی شکل  میں پوری ایک فوج ہوتی ہے ۔شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ہندوؤں کے بعض طبقوں میں آج بھی جب بارات ان کے دروازے پرپہنچتی ہے تو علامتی طور پر کچھ لوگ  لاٹھی لے کر بارات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ہوتا یہ تھا کہ فاتح فوج اپنے مفتوح کو غلام بنا لیتی تھی ، پھر نہ صرف وہ لوگ اس لڑکی کو اٹھا لاتے تھے بلکہ وہاںدوران قیام ان سے خاطر مدارات کرواتے تھے اور ان سے خدمت بھی لیتے تھے۔تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ ہم نے بھی بارات کو وہیں سے مستعار لیا ہے۔
    بارات میں جانے والے اپنے آپ کو فاتح فوج کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اورمیزبان کی ذرا سی کوتاہی پر نہ صرف اسے برابھلا کہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
    شادی کے نام پر سماج میں در آئے اس رسم و رواج سے آج سبھی یکساں طورپر پریشان ہیں۔اس اعلیٰ طبقے کو جانے دیجئے جس کے پاس پیسے کی فراوانی ہے اور جن کی تعداد وطن عزیز میں۲؍ فیصد سے زائد نہیں ہے، بقیہ ۹۸؍ فیصد شادی کے نام سے ہی لرز اٹھتے ہیں۔یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ ان رسوم سے صرف لڑکی اوراس کے اہل خانہ پریشان ہوتے ہیں، نہیں بلکہ لڑکے والوں کی پریشانی بھی کم نہیں ہوتی  حتیٰ کہ دعوت کھانے والوں پر بھی شادی میں شرکت ایک بار ہوتا جارہا ہے۔لڑکی کے والدین پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ تو ہے ہی، رسوم کے نام پر ہونے والے اخراجات سے لڑکے والوں کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اسی طرح دعوت کھانے والوں کو بھی ’لفافے‘ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
     مگر افسوس کی  بات ہے کہ اسے ہرکوئی مسئلہ تسلیم کرتا ہے، اسے لعنت سمجھتا ہے اوراس کا خاتمہ چاہتا ہے مگر جب بات اس کی آتی ہے تو وہ ’خوشی خوشی‘ اس پریشانی کو اپنے سر اوڑھ لینا چاہتا ہے۔ زمین جائداد بیچ کر، یہاں وہاں سے قرض حاصل کرکے دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوتا ہے لیکن رسوم سے علاحدگی اختیار نہیں کرتا۔ انہیں یہ جملہ مارے ڈالتا ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟..... کچھ نہیں کرنا چاہتے تو لڑکے والوں کی ’دباؤ‘ سے خود کو گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو  پھر اس  کےخاتمہ کی کس طرح  امید کی جائے؟ یہ تو سگریٹ کا اشتہار ہوگیا کہ ’اسے پینا صحت کے لیے مضر ہے‘  دیکھتے ہوئے بھی لوگ اسے پیتے ہیں اورسماج میں ایک ’ رتبہ‘ حاصل کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد کینسر  کے شکار ہوکر دنیا کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔
    شادی یعنی خوشی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ بالکل۔ لیکن اس کے لیے ہمیں   اس خوشی کے راستے میں حائل رسوم و رواج کا قلع قمع کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سے مراد ہرکسی کی انفرادی کوشش ہونی چاہئے جو بعد میں خود بخود اجتماعی ہوجائے گی۔ کہاجاتا ہے کہ ایمان کے تین درجے ہیں۔ اول یہ ہے کہ براہوتے ہوئے دیکھو تو اسے بزور طاقت روکو، اگریہ ممکن نہ ہوتو زبانی روکو اوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل میں برا سمجھو۔ اب ہمیں  خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم ایمان کے کس درجے میں ہیں؟ کیا ہم ایمان کے تیسرے درجے میں بھی نہیں ہیں کہ ان خرافات کو دل سے براسمجھ کر خود اس سے دور ہوسکیں؟
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود  اپنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
    اور ایک اہم بات۔ ہم جب بھی کوئی اچھا عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو شیطان ہمیں بہکاتاہے، مختلف تاویلات اوردلیلیں دیتا ہے اور ہمارے برے کاموںکو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم  اپنے عزم کے تئیں کتنے مستقل مزاج ہیں ۔  اس کیلئے اپنا احتساب آج سے ہی کرنا ہوگا،کسی خصوصی موقع کے انتظار کے بغیر،  اور پھر ہم دیکھیں کہ ہم ایمان کے کس درجے  میں ہیں؟

2 comments:

  1. اسلام علیکم
    شادی میں رسم و رواج کے نام پر خرافات و بدعات کا خاتمہ ، وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم لوگ اپنے راستے بدل چکے ہیں۔ جہاں تک رسم و رواج کی بات ہے اس کے لئے وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ الپتہ ہمیں ماحول میں تبدلی لانا ضروری ہے جو کہ مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ۔ آج کے دور میں ہمارے رسم و رواج ہمارے معاشرے کے مطابق چل رہے ہیں اور معاشرے کو بدل نہیں سکتے۔ ۔۔
    معافی چاہتے کہی لکھنے میں غلطی ہو
    اللہ حافظ
    aminjk12@gmail.com

    ReplyDelete
  2. اسلام علیکم
    رسم و رواج یا معاشرہ ہمارے دیش میں اس کے معنے کچھ نہیں ہیں اگر عزت
    یا نام مشہور کرنا ہے تو جھوٹ ۔مکاری اور دھوکا دینا یہ فارمولہ استعمال کرنا
    ہے رسم رواج یا معاشرہ یہ الفاظ لکھنے اور سننے میں اچھے لگتے ہیں۔ ہمارے دیش کا رواج آج کل ایسا ہے کہ بیوی کو ایواڈ سے نوازہ جاتا ہے اور شوہر دہیشت گردی کے الزام میں گھوم رہا ہے۔۔جب بھی انڈیا آتا ہے تو کوئی
    کوئی نہ الزام درج ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس کے گھر پر اے ۔ٹی ۔اس بھی والے آہے تھے اور اب جلد ہی سرعام ہونے والا ہے اب شوہر اپنی بے
    قصور ہونے کا ثبوت دے تو بیوی اور اس کے ساتھ دینے والے اور مضبوط ہونگے
    اور بچے سوچ رہے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ ویسے اگر یہ بارے میں کویئ آپ کی رائے ہو تو ضرور فرمائے۔۔۔۔۔۔

    aminjk12@gmail.com

    ReplyDelete