Saturday 26 November 2011

Fake encounter or Political terrorism

جعلی انکاؤنٹر یا  سیاسی دہشت گردی
عشرت جہاں کا قتل کیا گیا،جس کی تصدیق اب عدالت عالیہ نے بھی کردی ہے، مگرافسوس کہ ملک میں قاتلوں کے خلاف وہ ماحول نہیں بن پایا، جیسا کہ بننا چاہئے تھا۔ جعلی انکاؤنٹر جسے سیاسی دہشت گردی کہنا چاہئے، کو اتنا
سنگین نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسا کیوں؟ ذیل کے مضمون میں انہی نکات پرگفتگو کی گئی ہے۔

قطب الدین شاہد
عشر ت جہاں اور اس کے ساتھ دیگر ۳؍ افراد کا انکاؤنٹرنہیں ہوا تھا بلکہ وہ قتل کیے گئے تھے........اب یہ الزام نہیں رہا بلکہ اس کی صداقت پر جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ا س کی توثیق گجرات ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔یہ قتل گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا تھاجس میں کئی سرکاری اداروں حتیٰ کہ ریاستی حکومت کی مدد کا بھی پور اپورا مکان ہے۔ان قاتلوںکو اگر ان کا تعاون حاصل نہ ہوتاتو اس کیس کے حقائق کی یوں پردہ پوشی نہ کی جاتی اور ذیلی عدالت کے ذریعہ اسے جعلی انکاؤنٹر قرار دیئے جانے کے بعد خاطیوں کو بچانے کیلئے مودی حکومت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرتی۔
    اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ قتل تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاان قاتلو ں اوراس مجرمانہ عمل میں معاونت کرنے والوں کو سزا ملے گی؟اور اگر ملے گی بھی تو کتنوں کو ملے گی اور کب تک ملے گی؟افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میںعدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت اس طرح نہیں سنائی دی، جس طرح کہ سنائی دینی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے جہاںگزشتہ ۵؍ دنوںتک مختلف موضوعات پر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اس دوران کئی بار واک آؤٹ ہوئے اور کئی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی مگر مودی حکومت  اوراس کے قاتل ٹولوں پر گرفت کی بات کسی نے نہیں کی۔اس تعلق سے کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔سی پی آئی نے فیصلے کے روز مودی حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ ضرور کیا تھامگر اس کی حیثیت محض ایک خانہ پری کی سی تھی۔اس مطالبے میں وہ شدت نہیں تھی جو عام طور پر بایاں محاذ کی کسی اور مانگ میں ہو ا کرتی ہے۔مہنگائی یقینا ایک بڑا موضوع ہے، بدعنوانی بھی وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے، دہشت گردی بھی ملک کیلئے ایک عذاب بنی ہوئی ہے...... یہ سب واقعی سنگین مسائل ہیں لیکن.... ان سب کے باوجود حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو یہ ان تمام میں سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو سرکاری سرپرستی میں انجام پاتی ہے،بدعنوانی کی وہ قسم ہے جس میں مال ہی نہیں بلکہ جان بھی جاتی ہے،مگر افسوس کی اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا۔اس پر نہ تو میڈیا نے اتنا زور دیا اور نہ ہی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے۔بی جے پی سے تو خیر کسی خیر کی امید ہی نہیں، کانگریس کے منہ سے بھی ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہیں نکل سکا۔وہ کانگریس جو خود کو گاندھی، نہرو، آزادا ور امبیڈکرکا جانشین کہلوانا پسند کرتی ہے، انصاف، غیر جانب داری اور شہریوں کی سیکوریٹی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہے بلکہ خود کو اس کا ٹھیکیدار بھی سمجھتی ہے، اس نے بھی پورے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔راہل گاندھی جنہیں کانگریس نوجوان دلوں کی دھڑکن کے طور پر پروجیکٹ کررہی ہے، کو مایاوتی حکومت میں ہزار کیڑے نظر آرہے ہیں، وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا عہد بھی کرتے ہیں لیکن مودی حکومت سے اٹھنے والا تعفن انہیں بے چین نہیںکرتا، لہٰذا وہ اس کے خلاف لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو حالانکہ اس پر گجرات حکوت سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ایک شہری کو بلا وجہ کیوں قتل کیا گیا  ؟ مگر چوہان حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مسلم ووٹوں کی سیاست کرنے والے لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے چمپئن بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مودی حکومت اوراس بہانے بی جے پی کی پریشانی کا سبب نہ بنا جائے۔خود کو متوازی حکومت سمجھنے والی ٹیم انّاکی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ضروری اور غیر ضروری ہر مسئلے پر بیان بازی کو ضروری سمجھنے والے انا ہزارے، کیجری و ال اورکرن بیدی کو جعلی انکاؤنٹر کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔جسیکا لال، نتیش کٹارا اوراروشی مرڈر کیس میں دلچسپی لینے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے تحریک چلانے والے طلبہ اور غیرسرکاری اداروںکو بھی عشرت جہاں کے قاتلوں پر غصہ نہیں آیا۔ ایساکیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم کا تعلق عوام سے  ہے جبکہ قاتلوں کا خواص سے..... اور ان میںسے بیشتر خواص کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس قتل کے خلاف عوام کی جانب سے غم و غصہ کااظہار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ عوام کےرجحان ساز دراصل یہی خواص ہیں اور یہ معاملہ چونکہ خواص کے خلاف ہے، لہٰذااس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔یہاں یہ کہنا غلط ہوگا کہ عشرت جہاں ایک مسلمان ہے، اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دراصل ہمارے سماج میں ابھی وہ بیداری آئی ہی نہیں کہ ہم حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کے خلاف برسرِا قتدار طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
    ایسے میں سابق داخلہ سکریٹری کا بیان مزید افسوسناک رہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے عشرت کی بے گناہی نہیں ثابت ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر آخر جی کے پلئی صاحب کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ایک طرف محض الزام ہے جبکہ دوسری طرف جرم ثابت ہورہا ہے۔عشرت جہاں کا تعلق دہشت گردوںسے تھا، یہ صرف ایک الزام ہے جبکہ عشرت جہاں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا گیا اور اس قتل کے شواہد مٹائے گئے، یہ ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے اس اعلیٰ ترین سابق عہدیدار کی جانب سے مجرم پر گرفت کی بجائے مظلوم کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں جارہی ہے؟کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ مودی کا شمار خواص میں ہوتا ہے، لہٰذا عوام سے ان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ مرکزی وزیر شرد پوار کو ایک جنونی نے ایک طمانچہ کیا رسید کردیا،  ملک گیر ہنگامہ برپا ہوگیااور پورا پارلیمنٹ متحدہوگیا....دوسری جانب سرکاری دہشت گردی کا شکار ایک عام شخص ہوا تو خواص کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مظلوم سے ہمدردی دکھانے میں اگر کوئی ’مسئلہ‘ درپیش ہے توظالم سے نمٹنے میں انہیں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے... ہم عوام کو اسی پرتسلی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج خواص کے تئیں عوام میں زبردست نفرت پائی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو برتر اورعوام کو کمترسمجھتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے ہوں یا عوام کی خدمت پر مامور سرکاری کارندے، وہ عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دراصل امریکہ کی طرح یہاں بھی ایک فیصد خواص کی جانب سے باقی ۹۹؍ فیصد کے تئیں بہت زیادہ تعصب پایا جارہا ہے۔ 
    جی کے پلئی جی کی اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے عشرت کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کردیا جائے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سرکاری عہدیداران اورافسران  پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، ۱۰؍ سے ۱۵؍ فیصد پرفوجداری معاملات بھی درج ہیں۔کرپشن اور کریمنل الزامات کے دائرے میں عوامی نمائندوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کئی وزیر، عوامی نمائندے اوراعلیٰ سرکاری افسران تہاڑ جیل کی ’زینت‘ بنے ہوئے ہیں۔ پلئی صاحب بتائیں کہ ان کے اصول کے مطابق ان سب کی سزا ئیںکیا ہونی چاہئیں؟
    وہ تو بہت اچھا ہوا کہ عدالت عالیہ نے بروقت پلئی صاحب کی گوشمالی کردی، ورنہ خاطیوں  کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کیلئے پردے کے پیچھے سے اور بھی کئی چہرےنمودار ہوجاتے، اس صورت میں جہاں ایک فیصد کی سرکشی میں اضافہ ہوتاوہیں ۹۹؍ فیصد کے حوصلے  مزید پست ہوجاتے۔
    حالات یقیناً خراب ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔  ایک جانب جہاں ایسے عناصر ہیں جو عوام کو کوڑے دان کا حصہ سمجھتے ہیں، وہیں ایسے لوگ اورایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انہیں انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کم از کم ہندوستان کے عدالتی نظام سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم عدالت پر پورا بھروسہ رکھیں اوراس سلسلے میں فالو اَپ جاری رکھیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئےعوام کو بیدار رہنا ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل یہ تمام فرعون ضرور بہ ضرور اپنے انجام کو پہنچیںگے۔ n

No comments:

Post a Comment