Wednesday 12 July 2017

سڑک پر نماز، مجبوری یا  حق!

نماز کیلئے خشوع خضوع بنیادی شرط ہے... لیکن کیا اُس وقت ہماری پوری توجہ نماز پر مرکوز ہوسکتی ہے ، جب تیز بارش میں ہم کھلے آسمان کے نیچے نمازپڑھتےہیں۔ برسات میں اکثر جمعہ کی نماز میں مصلیان سڑک پر نماز پڑھتے ہیں،بالخصوص اُن مساجد میں جو مصروف سڑکوں کے قریب واقع ہیں۔ اُس وقت ہم امام کی اقتدا ضرور کرتے ہیں لیکن کیا واقعی ہم نماز بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں؟ امام  صاحب قرأت کرتے ہیں اورہم میں سے بیشتر اُن آیات کی سماعت  کے بجائے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں موبائل اور پرس بھیگ نہ جائے؟ جیب میںرکھا کوئی کاغذ نہ خراب ہو جائے۔  امام صاحب نے قرأت طویل کی یا پھر رکوع اور سجود میں خشوع خضوع کا مظاہرہ کیا تو اُن کے تعلق سے بدگمانیاں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں کہ وہ خود تو آرام سے ہیں، اسلئے انہیں مصلیان کی فکر کیوں کر ہوگی؟ ویسے اس طرح  کے وسوسے اور خیالات صرف برسات ہی کے موسم میں نہیں آتے بلکہ تیز دھوپ میں تپتی سڑک پر نماز پڑھتے وقت بھی پیدا ہوتے ہیں۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
    نئی مساجد کا قیام بہت مشکل ہے اور مساجد کی توسیع کا کام بھی آسان نہیں ہے، اس میں قانونی دشواریاں کافی ہیں...البتہ اس سے آسان، بہت آسان اور قابل عمل ایک راستہ اور ہے جس پر فوری عمل کیا جاسکتا ہے.... اور  وہ ہے ضرورت کے لحاظ سے  زائد جماعتوں میں نماز کا اہتمام ۔
    ابھی برسات کے پیش نظر عیدالفطر کے موقع پر نماز دوگانہ کیلئے ممبرا کی سنی جامع مسجد میں  ۵؍ جماعتیں ادا کی گئیں۔کیا اس طرح کے انتظامات عید اورجمعہ کی نماز کیلئے  دیگر مساجد میں نہیں کی جاسکتیں؟ ممبئی میں بھی ایسی کئی مساجد ہیں ، جہاں جمعہ کی نماز کیلئے تین تین جماعتیں ہوتی ہیں۔پھر ایسا ان تمام جگہوں پر کیوں نہیں ہوتا جہاں جہاں مساجد میں جگہ کی تنگی ہے؟
    سڑک پر نماز پڑھنے سے صرف نمازی پریشان نہیں ہوتےبلکہ برادران وطن کو بھی دِقتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کہیں کہیں پورا راستہ  بند ہوجاتا ہے۔ ان پریشان حال افراد میںطلبہ بھی ہوسکتے ہیںجو امتحان دینے جارہے ہوتےہیں ،  مریض بھی ہو سکتے ہیں جن کا وقت پر اسپتال پہنچنا ضروری ہوتا ہے اور ملازمت کے متلاشی بے روزگار افراد بھی ہوسکتےہیں، جنہیں انٹرویو دینےجانا ہوتا ہے۔
    ہم  دعویٰ کرتے ہیں اوریہ دعویٰ بجا بھی ہے کہ دینِ اسلام ، دینِ فطرت ہے اور یہ پورے عالم کیلئے رحمت ہے، لیکن کیا ہم اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرتے ہیں؟ عبادت ہمارا ذاتی عمل ہے، جس کی ادائیگی  ہم پر فرض ہے اور یہ ہم اپنےنامۂ اعمال کو بہتر بنانے کیلئے کرتے ہیں... لیکن یہاں رک کر ہمیں تھوڑا سا سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنی   عبادت کیلئے کسی کو پریشانی میں ڈالیں گے تو وہ ہمارے اور ہمارے مذہب کے تعلق سے کیا رائے قائم کرے گا؟ وہ اسے کیوںکر پوری دنیا کیلئے رحمت سمجھے گا؟ اور اس سے بھی اہم یہ کہ کیا  اللہ تعالیٰ ہماری اس عبادت کو قبول کرے گا، جس سے اس کے بندوں کو تکلیف ہو۔  بلاشبہ اللہ کے بندے سبھی ہیں، صرف ہم نہیں۔
    اِس وقت جبکہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمان نشانے پرہیں،ہم بھی اسلام کی شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں؟ سڑک پر ہم نماز پڑھتے ہیں تو اسے مجبوری نہیں بلکہ حق سمجھتے ہیں۔مجبوری سمجھتے تو ہمارا رویہ نرم ہوتا اور ہم متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے لیکن یہاں ہماری اکڑ ’دیکھنے‘ لائق ہوتی ہے۔جمعہ کے دن ’بیان‘ شروع ہوتے ہی سڑک پر چٹائیاں بچھا دی جاتی ہیں، جبکہ مسجد کے اندر جگہ خالی ہوتی ہے....  اور یہ چٹائیاں نماز کے بعد چندہ وصولی اور اس کے بعد دعا سے پہلے نہیں اٹھائی جاتیں۔ اگر ہم سڑک پر نماز پڑھنے کیلئے  واقعی ’مجبور‘ ہیں تو کیا ایسا نہیں کرسکتے کہ صرف فرض نماز کے وقت سڑک پر بچھائیں اورسلام پھیرنے کے فوراً بعد اسے اٹھالیں؟ ہم اپنا محاسبہ آخر کب کریں گے؟

No comments:

Post a Comment