Saturday 13 July 2013

Muslim numaindon ki be hisi par musalmano ko sharmindagi

مسلم نمائندوں کی بے حسی پر
عام مسلمانوں کو افسردگی و شرمندگی کا سامنا

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲؍ہفتوں میں ۲؍ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو افسردگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں واقعات تو محض ایک علامت ہیں، ورنہ اس طرح کے واقعات سے عام مسلمانوں کا سابقہ روز پڑتا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔
     پہلا واقعہ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آصف ابراہیم صاحب کی اس جدوجہد کا ہے، جس میں وہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ماخوذ اپنے ایک افسر راجندر کمار کو بچانے کیلئے سی بی آئی کے اعلیٰ افسروں سے لڑرہے تھے۔ اگر ان کا افسرِ مذکور بے قصور ہوتا اوراس کے متعلق ان کے پاس کچھ دلائل ہوتے تو ان کے اس قدم پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ ان کے جرأت کی داد دی جاتی کہ وہ ایک مظلوم کا دفاع کر رہے ہیں مگر وہ صرف اور صرف اس لئے انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اس کی وجہ سے آئی بی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔
    کہاجاتا ہے کہ راجندر کمار بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے میں بھی رازدار ہیں۔ آصف ابراہیم صاحب کے اس رویے سے ہندوستانی مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔ کہاں تو ان سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ حصولِ انصاف کی راہیں ہموار کریںگے اور کہاں مسلمانوںکو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر جب انہیں اس عہدے کے لائق سمجھا گیا تھا اور اس کااعلان ہوا تھا تو مسلمانوں نےخوشی کا اظہار کیاتھا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے.... اس حساس عہدے کی باگ ڈور پہلی مرتبہ کسی مسلم افسر کو سونپی گئی تھی۔ دراصل آئی بی  اور اے ٹی ایس جیسی تنظیموں سےمتعلق مسلمانوں میںکافی بدگمانیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان کی تقرری کے بعد عام مسلمانوں نے  یہ سمجھا تھا  اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا تھا...... یعنی دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں رُک جائیںگی اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو نے لگے گا۔ آصف ابراہیم صاحب  انٹیلی جنس بیورو کے چیف ہیں لیکن انہیں شاید یہ خبر نہ ہو کہ ان کی تقرری پر سادہ لوح مسلمانوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی تھیں۔
    وہ بہت خوش تھے، انہیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ایسا سمجھتے ہوئے مسلمان ان سے کسی جانب داری کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف انصاف چاہتے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے۔
     ان حالات میں مسلمانوں نے ان سے اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے اور یہ سلسلہ اب رُک جائے گا۔ ایسے میں انصاف دلانے کے بجائے جب انہیں مبینہ طور پر انصاف کی راہ میں حائل  ہوتے دیکھا گیا تو مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔
    دوسرا واقعہ نور محمد دوست محمد پٹھان(این ڈی پٹھان) کا ہے  جو اس وقت جیل  کی ہوا کھا رہے ہیں۔ یہ صاحب مہاراشٹر حکومت میں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان پر اوقاف کی ملکیت میں لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے  جبکہ ان پر ان زمینات کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کوشرمندہ کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی غیر مسلم افسر ماخوذ ہوتا اور اس کیلئے جیل جاتا تو  اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی این ڈی پٹھان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نمائندوںسے عام مسلمان بہت ساری اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام و خواص کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اپنے اخلاص اور سادہ لوحی کی وجہ سے عام مسلمان یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اس جگہ پہنچنے والے افسر ہوں یا وزیر  یا پھر کوئی عہدیدار.... ان میں سے بیشتر کو قوم و ملت کی نہیں، صرف اپنی پروا ہوتی ہے۔ وہ اپنا ’اسٹیٹس‘ بڑھانے اور دولت و شہرت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں لہٰذااس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی آقاؤں کو خوش کریں۔ اُن کا انجام اِن لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جو قوم و ملت کی بات کرنے پر ’ٹھکانے‘ لگادیئے جاتے ہیں۔
    ضروری نہیں کہ سبھی اس معیار پر پورے اُتریں، کچھ مسلم افسر، عہدیدار اور وزیر وں کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ علیٰحدہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لہٰذا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
    انتخابات ہوں یا امتحانات... جب ان کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں تو عام مسلمان سب سے پہلے اس میں اپنے نمائندوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ تعداد اگر خاطر خواہ ہے تو اس پر جشن مناتا ہے، بصورت دیگر افسوس کرتا ہے۔ تعداد کی کمی کی وجوہات اگر سیاسی ہوئیں تو اس کیلئے احتجاج بھی کرتا ہے..... ’یوپی ایس سی‘ کے امتحان میں ہر سال ۳؍ساڑھے ۳؍فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
     اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونےوالوں کے اعزاز میں جلسےہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں اور ان پر فخر کااظہار کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پرکسی مسلم افسر کی تقرری ہوتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ شخص اسی گھر کا ایک فرد ہے۔ محمد اظہرالدین، ثانیہ مرزا، محمد کیف، ظہیر خان اور عرفان پٹھان....  ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے اور کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان  مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
    اسی طرح لوک سبھااور اسمبلیوں کے انتخابات میں عام مسلمان جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ  صرف اور صرف مسلم ہونے کی وجہ سے کسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور اس کے جیتنے پر خوشی کااظہار کرتا ہے۔ مرکزاور اسمبلیوں میں جیتنے والے مسلم نمائندے بھلے ہی اس بات کو فراموش کردیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی کامیابی میں عام مسلمانوں کا حصہ ہے لیکن یہ بات   جگ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ بھی اسی لئے ملتا ہے کہ وہ مسلمان  ہیں اور انہیں ووٹ ملنے کی بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔
    مسلمانوں کونمائندگی دینے کے نام پر عام مسلمان سیاسی جماعتوں سے جھگڑا مول لیتا ہے، مورچہ نکالتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر لاٹھیاں اور بندوق کی گولیاں بھی کھاتا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا ملتا ہے؟ ان کے مطالبے اور احتجاج پر جن صاحب کو مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے، تھوڑے ہی دنوں میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس مقام تک پہنچنے میں عام مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟  وہ اسے اپنی ذاتی محنتوں کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اپنی محنت و صلاحیت سے  اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن ..... کیا ان کی اس کامیابی میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی عزت افزائی سے اگرعام مسلمان خوش ہوتے ہیں تو ان کی رسوائی سے عام مسلمان شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مسلم طالب علم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی پر، کسی مسلم افسر کی ترقی پر یا کسی سیاست داں کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افسردگی اور شرمندگی کا سامنا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ  انہیں  اپنا سمجھتے ہیں؟  دوسرا اور دِقت طلب حل یہ ہے کہ مسلمان کردار سازی پرتوجہ دیں۔ طلبہ پر محنت کریں اور  انہیں بچپن ہی سے اس بات کااحساس دلائیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمان جنہیں انسانیت کی فلاح کیلئے دُنیا میں امام بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر اس محاذ پر محنت کی گئی تو ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوںگے۔n

No comments:

Post a Comment