Monday 29 July 2013

Roznaamcha_Facebook and Maslaki tension

فیس بُک اور مسلکی اختلافات

قطب الدین شاہد

ہم مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔  الزام کے مطابق  برادران وطن سے ہماری ایک نہیں بنتی،  دونوں میںہمیشہ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، کسی وجہ سے اگر کچھ دنوں تک دونوں بڑی قوموں میں امن و چین کا معاملہ رہا تو علاقائی تعصب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، موقع ملے تو ایک ریاست کےمسلمان دوسری ریاست کے مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں،اگر اس کی نوبت نہیں آئی تو شیعہ اور سنّی برسرِ پیکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی الزام تراشی کرنے والوں کے مطابق شیعہ شیعہ اور سنّی سنّی بھی ایک ساتھ امن و سکون سے نہیں رہتے بلکہ یہاں بھی بہت سارے اختلافات آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے پیہم تکرار ہوتی رہتی ہے، یہ زبانی تکرار بڑھتی ہے تو تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
    یہ اور ایسی ساری باتیں مسلمانوں پر الزام ہے..... یقینا ً یہ الزام ہی ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
    ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی ایک خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کیلئے ذمہ دار کون ہے؟
    فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔مسلکی اختلافات پر اپنی توانائی صرف کرنے والے چاہیں تو اسے مذہبی و مسلکی تبلیغ کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال کرسکتےہیں۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
     مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

No comments:

Post a Comment