Saturday 3 August 2013

دُرگا ناگپال کی معطلی پراتنا واویلہ کیوں؟
اگر انہیں ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی سزا دی گئی ہے تو مسجد کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟

قطب الدین شاہد

اُتّرپردیش  میں معطل کی گئی آئی اے ایس افسر کی حمایت میں آل انڈیا آئی اے ایس اسوسی ایشن کا یوں پُرجوش انداز میں سامنے آنا ، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نوکر شاہی میں فرقہ پرستی بہت اندر تک سرایت کرگئی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ۲؍ سال قبل جب گجرات میں سینئر آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو مودی حکومت نے معطل کیا تھا، تب بھی ان کی بحالی کیلئے اسی کی طرح کی کوششیں کی گئی ہوتیں..... لیکن تب ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت سنجیو بھٹ کو اپنا دفاع اور اپنی بحالی کیلئے کوششیں  اپنے طور پر تنہا کرنی پڑی تھیں۔ میڈیا نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ ان کے مخالفین کے بیانات کو نمایاں کرکے پیش کیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سنجیو بھٹ اس سزا کے مستحق تھے، اس کے برعکس درگا شکتی کے معاملے میں ریاستی حکومت کے خلاف میڈیا ایک فریق کے طور پر کام کررہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ’ایماندار‘ درگا کو محض اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ وہ ریت مافیا کے خلاف کام کررہی تھیں۔
    درگا شکتی کو ریاست میں امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں ان کے عہدے سے معطل کیا گیا ہے لیکن  دور کی کوڑی لاتے ہوئے میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے ریت مافیا کے خلاف ان کی کارروائیوں سے جوڑ دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح درگا کو ایماندار افسر کےطورپر آئی اے ایس اسوسی ایشن ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے ذریعہ پروجیکٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سبھی واقعی کرپشن کے بالکل خلاف ہیں اور انہیں بدعنوان حکمراں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر  یہ سچ ہے تومجموعی طورپرکرپشن کے معاملے میںہمارے ملک کا شمار دنیا کے سرفہرست ملکوں میں کیوں ہوتا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب یعنی نوکر شاہ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اگر واقعی بدعنوانی  کے خلاف متحد ہوجائیں تو کیا مجال کہ کہیں کرپشن کا کوئی واقعہ رونما ہو۔   یہ تینوں  بیدار ہو جائیں توحکومت کی سرپرستی میں بھی   بدعنوانوں کی دال نہیں گل سکتی۔
    مطلب صاف ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والا معاملہ ہے۔  اگر یہ الزام درست ہے کہ انہیں ان کی ایما نداری کی سزا دی گئی ہے  یعنی ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی بنا پر انہیں معطل کیا گیا ہے تو مسجد  کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟کیا قادل پور گاؤں کی مسجد کے احاطے کی دیوار کے انہدام میں ان کا کوئی رول نہیں ہے؟ ریاستی حکومت پر دُرگا کے حامیوں کاایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف سازش رچی گئی تھی، جس میں وہ پھنس گئیں۔ اس الزام کے مطابق سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی نریندر بھاٹی کا کوئی رشتہ دار غیر قانونی طور پر ریت کی کھدائی کے معاملے میں پکڑاگیا تھا جس کے خلاف درگا شکتی  نے کارروائی کرتے ہوئے معاملہ درج کروایا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ بھاٹی نے درگا سے معاملہ واپس لینے کی بات کی تھی لیکن ’ایماندار‘ ایس ڈ ی ایم نے ان کی ایک نہیں سنی، جس کی وجہ سے ناراض ایم ایل اے نے ان کے خلاف ایک سازش رچی ۔ درگاحامیوں کے مطابق نریندر بھاٹی نے قادل پور کے گاؤںوالوں کو ۵۱؍ ہزار روپے بطور چندہ دے کر غیرقانونی مسجد کی تعمیر کیلئے ’اکسایا‘ اور پھرخود ہی ایس ڈی ایم کو خبر بھی دی کہ یہاں ایک غیرقانونی مسجد کی تعمیر کی جارہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سازش پوری طرح سے بھاٹی نے رچی تھی جس میں آئی اے ایس افسر بری طرح پھنس گئیں۔
    یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا  ہے کہ جب اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک آئی اےایس  اور آئی پی ایس افسر اس طرح کی معمولی سازشوں کا شکار ہوا کریںگے تو ملک کا کیا ہوگا؟ وہ کس طرح ملک کو سنبھالیںگے؟  ایک سوال اور کہ ایسے افسروں کو اپنے عہدے پر رہنے کا حق کیوں کر باقی رہے جنہیں یہ اندازہ  ہی نہ ہو کہ وہ جو قدم اٹھانے جارہے ہیں، اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے؟
    ہندوستان ایک کثیرمذہبی، کثیر جماعتی اور کثیر تہذیبوں والا رنگا رنگ ملک ہے۔یہاں بہت کچھ دیکھ بھال کر اور بہت کچھ نظر انداز کرکے چلنا پڑتا ہے۔سخت قانون کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس ملک میں تعلیم کی شرح آج بھی تین چوتھائی سے کم ہو اور رائے دہندگان کو اپنے امیدواروں کا نام پڑھ کر نہیں بلکہ ان کی نشانیاں دیکھ کر ووٹ دینا پڑتا ہو، وہاں قانون کی سختی سے بات بننے کا نہیں بلکہ بگڑنے ہی کا اندیشہ رہے گا۔    
    گاؤں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاںرہنے والوں کی مالی حیثیت کیا ہے؟ او ر اُن کی تعلیمی شرح کیا ہوگی؟ایسے میں جب گاؤں والوں نے درگا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ اپیل کی کہ انہیں رمضان تک مہلت دے دی جائے، وہ حکومت اور انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کریںگے تو ایماندار افسر نے انہیں اس کا موقع کیوں نہیں دیا؟کیا وہ نہیں جانتی تھیںکہ مسجدکی دیوار گرانے کا کیا مطلب ہوتا ہے اوراس کے کیا نتائج برآمد ہوںگے؟ اور یہ کہ انہیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے؟
    حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے ایک عرصے بعد کوئی اچھا کام کیا ہے اور پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ صورتحال خراب ہونے سے بچانے کیلئے  بروقت کارروائی کی ہے۔ حکومت اس کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے لیکن حکومت کو بس اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس ڈی ایم کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے جس نے قادل پور کا دورہ کئے بغیر اپنی برادری یعنی آئی اے ایس افسر کا دفاع کیااوراس کیلئے دروغ گوئی کا سہارالیتے ہوئے جھوٹی رپورٹ تیار کی۔ ہوسکے تو آئی اے ایس اسوسی ایشن کی بھی خبر لی جانی چاہئے جس نے آنکھ بند کرکے دُرگا کی حمایت کی اور حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔

No comments:

Post a Comment