Saturday 10 August 2013

firing on border.....

سرحد پر فائرنگ:  محض اشتعال انگیزی یا
 ہند پاک تعلقات کو خراب کرنے کی سازش؟
 
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جموںکشمیر میں ہند پاک سرحد پر بلا وجہ کی فائرنگ میں ۵؍ ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے۔  اس واقعے نے ایک بار پھر امن پسندوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا یہ صرف اشتعال انگیزی ہے یا اس کے پس پشت کچھ اور معاملہ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں، جو ہند پاک تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دینا چاہتیں۔جیسے ہی حالات کچھ سازگار ہونے لگتے  ہیں، دونوں جانب کی ان طاقتوں میں بے چینی پائی جانےلگتی ہےاور پھر کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ تعلقات کی یہ گاڑی پٹری سے  اترجاتی ہے..... کئی بار تو بھیانک حادثے بھی رونما ہوچکے ہیں جس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے۔
       پاکستان میں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کا عمل ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔  ہوا بھی ایسا۔ نواز شریف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جسے منموہن سنگھ نے خوش دلی سے قبول بھی کرلیا۔ سیکریٹریز اوروزارتی سطح پر گفتگو کی تاریخیں بھی متعین ہوگئیں اور ستمبر میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات بھی طے ہوگئی۔ حالات کو معمول  پر آتا دیکھ کر ان طاقتوں کا بے چین ہونا فطری ہی تھا ، ایسے میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف  کے اس مشورے نے اس بے چینی میں مزید اضافہ کردیا کہ دونوں ملک اپنے دفاعی اخراجات میں تخفیف کرکے اس رقم کو ملک کی ترقی میں صرف کریں۔   اس بیان کا جہاں دونوں ملکوں کے امن پسندوں نے خیر مقدم کیا وہیں  اس کی وجہ سے تخریب پسند قوتوں   کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔
    یاد کیجئے ..... ۱۹؍ فروری ۱۹۹۹ء کو جب اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر  ہندوستانی وزیراعظم   اٹل بہاری واجپئی نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ   بس کے ذریعے لاہور کا سفر کیا تھا۔دونوں ملکوں میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوگیا تھا....  پوری فضامعطر ہوگئی تھی ۔ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے ۲۰؍ فروری کو لاہور اعلامیہ بھی جاری کردیا جس میں دونوں نے جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔  یہ اُس وقت کی بات ہے جب دونوں ملکوں نے کچھ ہی دنوں قبل نیوکلیائی تجربہ کیا تھا جس کی وجہ سے دونوں  ملکوں  کے درمیان باہمی اعتماد میں ایک بڑی سی خلیج پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی ۳؍ مئی کو جموں کشمیر میں کارگل کے مقام پر پاکستانی فوجیوں کی دراندازی کی خبر آئی  اور ۵؍ مئی کو پیٹرولنگ کرتے ہوئے ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کا اغوا، ان پر تشدد کرنے اور بعد میں ہلاک کرنے کی خبریں موصول ہوئیں۔ شرپسندوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی امن کی فضا مسموم ہوکر رہ گئی۔ اس کے بعد تعلقات کو معمول پر آنے میں برسوں لگے۔۲؍ ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں نے جانی و مالی نقصانات کےعلاوہ بھی بہت کچھ گنوایا۔
    ۱۴؍ جولائی ۲۰۰۱ء کو اُس وقت  ایک مرتبہ ماحول پھر سازگار ہوتا نظر آیا  جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا  اور آگرہ اعلامیہ جاری ہوا تھا۔  اس اعلامیے کے اعلان کے وقت تھوڑی سی تلخی ضرور  پیدا ہوئی تھی لیکن بات بگڑی نہیں تھی۔  تعلقات کی یہ گاڑی پٹری پر رواں دواں تھی لیکن اسی سال ۱۳؍ دسمبر کو ہندوستانی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے  اور اس طرح یہ تیز رفتار گاڑی اچانک پٹری سے اُتر جاتی ہے۔  حالانکہ ہند پاک تعلقات میں بہتری کیلئے سب سے بہتر موقع یہی تھا کیونکہ دونوں جانب ایسی حکومتیں تھیں جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ یہ طاقتیں اتحاد واتفاق کی سب سے بڑی مخالف ہیں۔ ہندوستان میں آر ایس ایس کی زیرسرپرستی بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی جبکہ پاکستان میں فوج کی سرپرستی میں جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے لیکن یہ تعلقات معمول پر نہیں آسکے۔ ۲۰۰۴ء تک بی جے پی  کااقتدار برقرار رہا تھا جبکہ ۲۰۰۸ء تک پاکستان میں مشرف  برسرِ اقتدار تھے۔  حالات میں بہتری کی امید تب تک نہ نہیں جاسکی جب تک مشرف اقتدار سے بے دخل نہیں ہوئے۔
      ۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی عمل میں آئی، وہاں مشرف کی جگہ آصف علی زرداری نے سنبھالی۔  زرداری نے بھی آتے ہی ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی باتیں کیں اوراس پر کچھ حد تک عملی اقدامات بھی ہوئے مگر..... وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ یہاں ہندوستان میں فرقہ پرست جماعتوںنے اور پاکستان میں شدت پسند عناصر نے جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ انہیں فوج کی سرپرستی حاصل ہے،   اس پر تنقیدیں شروع کردیں اور ان تعلقات کے خلاف بیانات دینے لگے۔ کچھ ہی دنوں  بعد یعنی ۲۶؍ نومبر کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوگیا۔ اس حملے میں کئی سینئر پولیس افسروں سمیت ۱۶۶؍ لوگ ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس حملے کی وجہ سےدونوں ملکوں میں  ایک بار پھر جنگ کی سی کیفیت پیدا  ہوگئی تھی۔
    ممبئی پر ہونے والے اُس حملے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جو تعلقات خراب ہوئے تھے، تو آج تک اس میں بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ ۵؍ جون ۲۰۱۳ء کو جب نواز شریف نے  پاکستان میںاقتدار کی   باگ ڈور سنبھالی تو امن پسندوں نے راحت کا سانس لیا اور امید ہوچلی کہ برف ضرور پگھلے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ نواز شریف نے جہاں ہندوستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، وہیں منموہن سنگھ نے بھی اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ یہ بات اُن لوگوں کو بھلا کہاں پسند آسکتی تھی جن کی بقا کا راز ہی ہند پاک دشمنی میں مضمر ہے۔  یقیناً کوئی سازش ہوئی ہوگئی اور اس میں انہیں اس وقت کامیابی بھی مل گئی جب گزشتہ دنوں پونچھ میں  ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کو شہید کردیا گیا۔  یہ حرکت یقیناً دہشت پسندانہ ہے، جس کاسخت جواب دیا جاناچاہئے لیکن..... اُس طرح سے نہیں جس طرح سے ہندوستان کےبعض عناصر چاہتے ہیں۔یہ بات بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ پاکستانی فوج کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کی فضا پسند نہیں ہے لہٰذا وہ دفاعی اخراجات میں بھی کمی نہیں چاہتی۔ ایسے میں نواز شریف کے دفاعی اخراجات میں کمی کے مشورے سے یقیناً وہ تلملا گئی ہوگی ، جس کے بعد اس نے یہ انتہاپسندانہ حرکت کی۔ ہمارے یہاں بھی بعض ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کی دشمنی  ہی میں آکسیجن پاتی ہیں اور اس کے سہارے آگے بڑھتی ہیں۔ پاکستانی فوج کی اس حرکت کے بعد ان لوگوں نے ایک بار پھر حکومت پر اسلام آباد سے گفتگو کا دور ختم کرنے کیلئے دباؤ بنانا شروع کردیا ہے۔
    لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہنی چاہئے تاکہ سیاسی اور کاروباری سطح پر تعلقات بہتر سے مزیدبہتر کی جانب گامزن ہوں۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا مشورہ بھی قابل قدر ہے کہ دونوں ملکوں کو دفاعی بجٹ میں کمی لاتے ہوئے ملک کی ہمہ جہت ترقی کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دفاع پر ۱۷ء۶؍ فیصد یعنی ۲؍ لاکھ ۳؍ ہزار ۶۷۲؍ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے جبکہ تعلیم کیلئے اس کاایک چوتھائی یعنی صرف ۶۵؍ ہزار ۸۶۹؍ کروڑ مختص کیا گیا ہے۔
     مبارکباد کی مستحق ہے ہندوستانی حکومت کہ اس نے سرحد کی دونوں جانب آباد ان عناصر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےگفتگو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جو امن کے دشمن ہیں۔ایسے میں نواز شریف کو بھی چاہئے کہ اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ امن کی راہ ہموار ہو اور یہ تاثر بھی ختم ہوجائے کہ فوج پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment