Wednesday 14 August 2013

Roznaamcha_15 August

ایک رسم ، ایک روایت

قطب الدین شاہد

یومِ آزادی کسی بھی ملک کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی ہر سال ۱۵؍ اگست کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ملک کی آزادی کیلئے ہمارے بزرگوں کو بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں، تب کہیں جاکر یہ دن ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اسلئے ۱۵؍ اگست کی تاریخ ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے، یہ ہم ہندوستانیوں کیلئے بہت یادگار دن ہے۔
    اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جشن تو خیر ہم ہر سال مناتے ہیں لیکن  ہر گزرتے سال کے ساتھ اس جشن کا رنگ پھیکا پڑتا جارہا ہے، ہماری گرمجوشی میں کمی آتی جارہی ہے اور ہماری نظر میں اس دن کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ جشن ایک رسم، ایک روایت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ کسی یادگار دن  یا جشن کا رسم و روایت میں تبدیل ہوجانا معیوب نہیں بلکہ بعض صورتوں میں بہتر ہی ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ قدرے مختلف ہے۔ کسی بھی رسم و روایت میں اگر جشن حقیقی کاعنصر شامل نہ ہو اور اس یادگار دن کی اہمیت اور پس منظر کو فراموش کردیا جائے تو  اس کی افادیت بہت محدود ہوجاتی ہے۔ کچھ یہی صورتحال ۱۵؍ اگست کے سالانہ جشن کی بھی ہے۔ حکومت سے لے کر عوام تک، سیاستدانوں سے لے کر ان کے کارندوں تک، افسران سے لے کر ملازمین تک اور اساتذہ سے لے کرطلبہ تک،سبھی بس ایک رسم ادا کررہے ہیں، جس میں کوئی جوش نظر آتا ہے نہ جذبہ۔  بس جیسے تیسے  ہر سال ۱۵؍ اگست کو اسکولوں، اداروں اور سرکاری دفتروں پر پرچم کشائی کی ایک تقریب منعقد کردی جاتی ہے، ترنگے کو سلامی دی جاتی ہے،کچھ لوگ گاندھی، نہرو اور اپنی پسند کے حساب سے آزاد اور پٹیل کو یاد کرلیتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد ترنگے کولپیٹ کر یوم جمہوریہ کیلئے کسی محفوظ مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔  اس دن کا سب سے اہم پروگرام لال قلعہ سے وزیراعظم کا عوام کےنام خطاب ہوتا ہے ..... مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ خطاب بھی رسمی ہوکررہ گیا ہے جہاں عمل سے عاری باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر،  لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم اپنی حکومت اور اپنی جماعت کا قصیدہ ہی پڑھتے ہیں۔
    اس دن کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کے رویوں نے عام ہندوستانیوں کوبھی بدظن کردیا ہے۔سرکاری اداروں میںنیچے سے اوپرتک لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے،جسے دیکھ کر عام آدمی صرف افسوس کرتا ہے۔  یوم آزادی کے تعلق سے یہ بدظنی ہی کی ایک مثال ہے کہ دو سال قبل یہ ایس ایم ایس خوب چلا تھا جس میں لکھا تھا کہ:
 ’’مہنگائی، غریبی، تشدد، لوڈ شیڈنگ،  دہشت گردانہ حملے اور  پولیس کی اذیت سے .....بچ  جانے والے تمام ڈھیٹ ہندوستانیوں کو یوم آزادی مبارک ہو۔‘‘
    مذاق کے موڈ میں لکھے جانے والے اس ایس ایم ایس پیغام میں یوم آزادی کی تحقیر نہیں بلکہ سیاستدانوں بالخصوص حکمراں طبقے  کے تئیں عوام کی ناراضگی کااظہار ہے۔ بلاشبہ یوم آزادی ایک جشن ہے لیکن جشن کے ساتھ ہی یہ دن ہمیں احتساب کی دعوت بھی دیتا ہے کہ آزادی سے قبل آزادی  کے متوالوں نےجس آزادی کی تمنا کی تھی، آزادی کے ۶۶؍ سال گزر جانے کے باوجود  وہ آزادی ہمیں کہیں نظر آتی بھی ہے کہ نہیں۔ حقیقت کیا ہے، اس کا اظہار فیض نے آزادی کے فوراً بعد کردیا تھا کہ:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
     آج ۶۷؍واں یوم آزادی ہے۔ آئیے اس موقع پر  عہد کریں کہ ہم اس سحر کی تلاش کریں گے اور تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک اسے حاصل نہیں کرلیتے۔ کیا یہ کام اس سے زیادہ مشکل ہے جو ہمارے بزرگوں نے ہماری آزادی کیلئے انجام دیا تھا؟

No comments:

Post a Comment