Wednesday 11 September 2013

Roznaamcha_Travel by ST buses

ایس ٹی بس کا سفر اورپریشانیاں

قطب الدین شاہد
 
سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
    ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس کی جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ اور سیمی لکژری بسوں کے معاملات قدرے غنیمت ہیں۔  
     ایسا کیوں ہے؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے   صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔سب سے بڑا مسئلہ ان بسوں کے ٹائم ٹیبل کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بس ڈپو اور بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافر وہاں بھٹکتے رہتےہیں لیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے  وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔چونکہ مسافروں کی شکایتیں سننے کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہے لہٰذا  ان سرکاری ملازموں کوجوابدہی کا خوف بھی نہیں ستاتا۔ یہی وجہ ہے کہ    ریاست کے کئی بس ڈپو تو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ان چوروں اور لفنگوں  سے ان کی ملی بھگت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوں کی وجہ سے خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکول جانے والی طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین جو روزانہ سفر کرنے پر مجبور ہیں، ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے کھڑے جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو .....   عام طورپر ہر ڈپو میں پولیس اسٹیشن ہوتا ہے اوران کی موجودگی میں روزانہ پرس اور موبائل چوری کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھار سفر کرنےوا لوں کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص اُس وقت جب وہ گھر کی خواتین اور بچوں کے ساتھ ہوں۔ 
      ایسا دراصل اس لئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو چونکہ یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے  لہٰذا حکومت ان سے زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں جبکہ ہماری جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بی ای ایس ٹی اس کی واضح مثال ہے۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

No comments:

Post a Comment