Saturday 14 September 2013

sentence for rape

آبروریزی کے مجرموں کو پھانسی کی سزا
خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دیاجانا ضروری تو ہے مگر
جرم  کےتدارک کیلئے بھی کچھ  کوششیں کی جائیں تو اچھا ہے
 
مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟  کیاسماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو عصمت دری سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟  اس طرح کی وارداتوں سے بچنے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتے؟
  
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ سال۱۶؍ دسمبرکو دہلی میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے وحشی مجرمین کو عدالت نے قرار واقعی سزا سنا دی ہے۔انہیں پھانسی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ بلاشبہ یہ اسی کے حقدار تھے بلکہ اس سے بھی کوئی سخت سزا انہیں دی جاتی تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا۔اس معاملے کی ایک اچھی بات یہ رہی ہے کہ سست رفتاری کیلئے مشہور ہمارے عدالتی نظام نے نہایت تیز رفتاری سے معاملے کی سماعت کی اور محض ۹؍ مہینوں میں فیصلے کا اعلان کردیا ۔ اس پر اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے جہاں دفاعی وکلاء نے سیاسی دباؤ میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا وہیں متاثرہ کے والدین نے خوشی کاظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بالآخر ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ اس پر بحث بعد میں کی جائے گی کہ یہ فیصلہ سیاسی دباؤ میں کیا گیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔ یاپھر یہ کہ ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا ہے یا نہیں..... آئیے گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے جرائم کوہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کی تدابیر یا طریقے اختیار نہیںکئے جاسکتے؟
    ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جرم ہونے سے قبل انہیں روکنے کی بات کرنے پر ہمیں قدامت پرست اور دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دیا جائے گا۔اس سے قبل ہم کئی اہم شخصیتوں کا حشر دیکھ چکے ہیں کہ جیسے ہی کسی نے اس موضوع پر لب کشائی کی اور احتیاطی تدابیر کی بات کی، میڈیا اور سیاست دانوں کے ساتھ خود کو آزاد خیال کہنے والوں نے اس پر یلغار کردی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں تاکہ اس بہانے ایک کو ٹی آر پی بڑھانے اور دوسرے کو سیاسی روٹیاں سینکنے کے مواقع مل سکیں۔ ایک سادہ سا اصول ہے کہ کسی بینک میں ڈکیتی ہوجائے تو وہاں صرف بینک کے باہر سیکوریٹی میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے قبل تجوری کی مضبوطی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لٹیروں کی نظر اور دسترس سے اسے دور رکھا جائے۔ کیا ہمارے لئے ہماری عصمت اور ہماری عزت بینک میں پڑے کاغذ کے ان نوٹوں سے بھی گئی گزری ہے کہ ہم اس کے تئیں اتنی لاپروائی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔عصمت دری اور آبروریزی کے ان بڑھتے واقعات کے سد باب کیلئے ہم صرف اور صرف سزاؤں کا ہی مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟ سماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو آبروریزی سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ اور کرتے بھی توہماری تان صرف سیکوریٹی میںاضافے ہی پر کیوں آکر ٹوٹتی ہے؟ ہم اپنی تجوری کی حفاظت کی جانب کیوں نہیں توجہ دیتے؟ ہم اپنی عزت کو عصمت کے لٹیروں کی نظروں اور ان کی دسترس سے دور رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟کیا صرف سز ا کے خوف سے اس قبیل کے لوگ اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں؟عام طور پر یہ عادی قسم کے مجرم ہوتے ہیں، انہیں آسانی سے جرم کے مواقع ملیںگے تو یہ کبھی باز نہیں آئیںگے؟
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ نئی دہلی میں ہونے والے اس واقعے کے بعد سماج میں کس طرح کے رد عمل کااظہار ہوا ؟ جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالے گئے اور مجرمین کے خلاف مظاہرے ہوئے، ان کیلئے سخت سے سخت سزاؤں کی سفارش کی گئی..... اس کے باوجودملک کے مختلف حصوں سے بہن بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔میڈیا نے ان میں سے صرف انہی خبروں کااحاطہ کیا جہاں اس کی دلچسپی تھی یعنی جہاں سے اس کی ٹی آر پی بڑھ سکتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سیاست داں بھی صرف اسی معاملے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیئے جس میں ان کے بیانات کو ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے کی انہیں امید تھی۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی دلت آبادی اور قبائلی علاقوں میںاس طرح کی وارداتیں آئے دن انجام دی جاتی رہی ہیں  مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات تو معاملہ بھی درج نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مجرم بارسوخ ہوتے ہیںاور انہیں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ 
    اس طرح کے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمین کی عام طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں۔
   ایک وہ جو دماغی مریض ہوتے ہیں۔ یہ ۵۔۴؍سال کی   معصوم کلیوں کو مسلنے یا ۷۰۔۶۰؍ سال کی عمر دراز خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ یہ جب وحشی پن پر آتے ہیں تو اپنی بیٹی، بہن اورماں کی بھی تمیز نہیں کرتے۔
     دوسری قسم میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو انتقامی طورپر اس طرح کے جرم انجام دیتے ہیں۔ دلتوں اور قبائیلیوں کو سزا دینے کے نام پر اکثر اس طرح کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں۔ فسادات میں ان عناصر کی بن آتی ہے۔
     تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوکراس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کیلئے وہ لالچ بھی دیتے ہیں، روپے بھی خرچ کرتے ہیں اور جب اس سے بات نہیں بنتی تو زبردستی بھی کرتے ہیں۔
    ان تینوں قسم کے مجرموں سے نمٹنے کیلئے کسی ایک قانون کا اطلاق مناسب نہیں ہے۔  پہلی اوردوسری قسم کے مجرموں کے جرم زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں اور یہ سراسر زیادتی پر محمول ہوتے ہیں جبکہ تیسری قسم کی وارداتوں میں سے بیشتر میں کہیں نہ کہیں دونوں فریق ذمہ دار  ہوتے ہیں.... مگر افسوس کہ ہمارا میڈیا ، ہمارے سیاست داں اور آزاد خیالی کی مبلغ تنظیمیں پہلی اوردوسری قسم کی وارداتوں پر آنکھیں بند رکھتی ہیں اور تیسری قسم کے جرائم میں  ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔
     یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم ہو یا نہ ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ملک کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج عصمت دری کے معاملات میں ایک بڑی تعداد  ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں۔  اکثر اس طرح کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں کہ شادی کا وعدہ کرکے یا ملازمت دلانے یا پھر پروموشن کا لالچ دے کر ایک سال سے اس کی عصمت دری کی جاتی رہی...... بہت ممکن ہے کہ بیشتر معاملات ایسے بھی ہوں جن میں ’بات‘ نہیں مانے جانے پر اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں بلیک میلنگ کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس  جانب بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
    لالچ دے کر کی جانے والی عصمت دری بھی بہرحال جرم ہی ہے لیکن ایک سال سے انجام دیئے جانے والے اس جرم کیلئے کیا ایک ہی فریق ذمہ  دار ہے؟  کیا یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا؟ اگر ملازمت مل جاتی یا پروموشن ہوجاتا  تو کیا کسی باصلاحیت حق دار کی حق تلفی نہیں ہوتی؟  شادی کا وعدہ کرکے کی جانے والی عصمت دری اگرچہ جرم ہے مگر یہ بات بگڑجانے ہی پر کیوں جرم قرار پاتی ہے؟  پہلے ہی سے اس طرح کے حالات کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟ کیوں اس طرح کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں اور کیوں اس کے مواقع دیئے جاتے ہیں؟ قانون اور معاشرے کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑتی؟
    چھیچھڑے دکھا کر کتوں سے شرافت کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ کتوں پر پابندی کے ساتھ ہی چھیچھڑے دکھانے والوں پر بھی روک لگنی چاہئے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی جائے، فحاشیت پر قابو پایا جائے اور اقدار کی تعلیم  عام کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment