Wednesday 7 October 2015

Teachers, students and parents

اساتذہ، طلبہ اور والدین

کسی بھی سماج میں تعلیمی ترقی کا راز عام طور پر اساتذہ، طلبہ اوروالدین  کے باہمی ربط میں تلاش کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہ تینوں زاویئے کافی اہم ہیں لیکن موجودہ دور میں صرف ان تین زاویوں کے متحرک ہونے سے کسی سماج کی کایا پلٹ نہیں ہوسکتی جب تک کہ تعلیمی اداروں کا انتظامیہ اور سماج بھی ان کے ساتھ معاونت نہ کرے۔   والدین اپنی بساط بھراپنے بچوں کو مواقع اور ماحول فراہم کرسکتے ہیں ، طلبہ جی جان لگا کر پڑھائی کر سکتے ہیں اور اساتذہ بھی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکتے ہیں لیکن صرف ا ن تینوں کی کوششوں سے انقلابی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کیلئے اسکول انتظامیہ بھی سر جوڑ کر بیٹھے اور سماج نہ صرف ان کی سرپرستی کرے بلکہ ان پر سخت نگرانی بھی رکھے۔ 
    اس کا شدیداحساس  اُس وقت ہوا  جب ایچ ایس سی کا رزلٹ ظاہر ہوا۔ ہمارے دفتر میں رپورٹ کی اشاعت کیلئے ۱۰۰؍ فیصد رزلٹ کا ڈھنڈورہ پیٹنےوالے تعلیمی اداروں کی ایک طویل لائن لگ گئی۔دیکھ کر ہم سب بہت خوش ہوئے کہ ہمارا تعلیمی گراف بلند ہورہا ہے۔ رپورٹس کی صورت میں ان تعلیمی اداروں کے قصیدے ایک ماہ تک شائع ہوتے رہے لیکن جب میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلوں کیلئے ضروری امتحان ’سی ای ٹی ‘ اور ’جے ای ای‘ کے نتائج ظاہر ہوئے تو میرٹ لسٹ میں ان تعلیمی اداروں کے بچے بہت پیچھے نظر آئے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ایم بی بی ایس  اور انجینئرنگ کے اچھے اداروں میں ان کالجز کے طلبہ کا تناسب کیا ہے؟ لیکن جہاں تک ہم تلاش کرسکے، جہاں تک ہماری نظر گئی، ہمیں ایک بھی طالب علم ایسا نہیں مل سکا جواس بات کا دعویٰ کرسکتا کہ پرائیویٹ کوچنگ کے بغیر اس کاکسی اچھے کالج میں داخلہ ہوا ہے۔ 
     ہم پرائیویٹ کوچنگ کی وکالت نہیں کرتے اور نہ ہی اس طرح کی کسی کوشش کی تائید و حمایت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں جب بارہویں کے رزلٹ کی اہمیت تقریباً ختم کردی گئی ہے اور اس کی جگہ انٹرنس امتحانات نے لے  رکھی ہے تو کیوں نہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس پر زیادہ فوکس کریں۔ ظاہر  ہے کہ یہ کام طلبہ، والدین اور اساتذہ نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے انتظامیہ اور سماج کو آگے آنا ہوگا اورانہیں وسائل  فراہم کرنے ہوںگے۔ 
    ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر جونیئر کالجوںکی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں ہے۔ طلبہ کو بارہویں پاس کرا دینا ہی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ بعض کالجزمیں ہے بھی تو وہ پروفیشنلزم نہیں ہے جس کا وقت تقاضا کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائیویٹ کوچنگ کلاسیز کے پاس  ہمارے کالجز کے مقابلے زیادہ وسائل ہیں کہ ان میں کوچنگ کرنےوالے طلبہ بارہویں میں اچھے مارکس لاتے ہیں اور انٹرنس میں بھی۔اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ جب وہ کرسکتے ہیں،تو ہم کیوں نہیں؟

No comments:

Post a Comment