Friday 30 October 2015

Roznaamcha_ Hamare Maamlat

ہمارے  معاملات
!
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان معاملات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ چوری، بے ایمانی،فریب دہی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے  کے عمل کو برا تو سمجھتے ہیں لیکن یہی کام بڑی ہنرمندی سے کرتے ہیںاور اپنے طور پر اپنے عمل کو ’جائز‘ بھی ٹھہراتے ہیں۔حاجی اور نمازی کے طور پر اپنی شناخت کو مشتہر کرنےوالے بعض لوگ اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھتے کہ حرام کمائی سے بننےوالا خون جب رگوں میں دوڑے گا، تواس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوںگے۔  یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ لوگ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ’’ایمانداری سے کاروبار کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ تجارت حضور اکرمؐ کی سنت ہے۔ ایسا کہہ کر یہ نہ صرف سنت نبویؐ کی توہین کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو ایمانداری سے کاروبار کرتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں، ان کی جانب انگشت نمائی کرتے ہیں اور بلا سبب ان کے تئیں بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
     مسلم دکانداروں اور غیر مسلم دکانداروں میں ایک واضح فرق ہے کہ صارفین کا غیرمسلم دکانداروں پر بھروسہ زیادہ ہوتا ہے۔ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر یہ بات محسوس کی گئی ہے مسلم دکانداروں کے یہاں ناقص مال ملتا ہے، وزن کم ہوتا ہے اور قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔  ہمارا اپنا ذاتی مشاہدہ کہ مسلم دکاندار سامان کو سونے کی  طرح تولتے ہیں۔ کیا مجال کہ ایک کلو سامان لینےوالے ۳۔۲؍گرام زیادہ چلا جائے جبکہ غیر مسلم دکاندار وزن برابر کرنے کے بعد ۱۵۔۱۰؍ گرام سامان یونہی ڈال دیتے ہیں۔ اس سے صارف کو اطمینان ہوتا ہے۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کچھ لوگ مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے سامان کم بھی تولتے ہیں۔ بالخصوص بھنگار کا کاروبار کرنے والے اس طرح کی فریب دہی کو ہنر سمجھتے ہیں۔ اس پر پشیمانی اور شرمندگی  کے بجائے نہایت شان سے کھلے عام اظہار بھی کرتے ہیں۔
     ہم جس پیٹرول پمپ سے پیٹرول لیتے ہیں، وہ ایک نامی گرامی مسلمان کا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اس کی براہ راست آمدنی ان تک پہنچتی ہے یا کرائے پر دے رکھا ہے لیکن نام بہرحال انہیں کا چلتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے دیکھتے  آرہے ہیں کہ وہاں پر ۱۰۰؍ روپے کا پیٹرول لیا جائے تو ۹۹؍ روپے اورکچھ پیسے کا پیٹرول ملتا ہے۔ شروع میں ہمیں لگا کہ اگر ہمیں کچھ کم ملتا ہے تو ممکن ہے بعض کو کچھ زیادہ بھی مل جاتا ہو لیکن بار بار کے مشاہدے کے بعد ایک بار میں ہم نے ملازم سے پوچھ ہی لیا تو پتہ چلا کہ وہ مشین اتنے پر سیٹ کی ہوئی ہے۔   ظاہر ہے کہ ۴۰۔۳۵؍ پیسے کیلئے صارف تکرار نہیں کرتا لیکن یہ بات  قابل غور ہے کہ اس طرح ایک پیٹرول پمپ پر دن بھر میں کتنا ’زائد‘ پیسہ جمع ہوجاتا ہوگا؟ اگر وہ رقم ’خیرات‘ بھی کردی جاتی ہو تو وہ حق ادا ہوجائے گا؟ کاش ! ہم سمجھ سکتے کہ حقوق العباد کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ اور یہ کہ ہم اپنے عمل سے اسلام کو کتنا بدنام کررہے ہیں؟

No comments:

Post a Comment