Wednesday 4 November 2015

بِہار میں موسم بَہار کی دستک، سیکولر محاذ کیلئے راستہ آسان

بہار میں انتخابی نتائج بھلے ہی ۸؍ نومبر کو ظاہر ہوں لیکن اس سے قبل ہی خوشگوار نتائج کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ موسم کی طرح بہار کا سیاسی موسم بھی معتدل انداز میں رواں دواں ہے اور اب بس بہار آنے ہی والی ہے۔ ایک جانب جہاں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی خود اعتمادی ہے وہیں دوسری جانب امیت شاہ اور نریندر مودی کی بوکھلاہٹ ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج سے ملک کی سیاسی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی آنےوالی ہے
 
   قطب الدین شاہد
 
حالات کا اپنے طور پر جائزہ لینے سے قبل آئیے  ایک سینئر صحافی کا تجزیہ دیکھتے چلیںجس کی ملک اور ریاستوں کی سیاست بالخصوص بہار کے  سیاسی حالات  پر گہری نظر ہے ۔ مشہور محقق اور صحافی اجے بوس جنہوں نے مایاوتی کی سوانح حیات قلمبند کی ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ملک بھر میں ریاستی انتخابات کا احاطہ کرنے کے اپنے۴۰؍ سالہ تجربے اور مشاہدے کے دوران میں نے شاید ہی کبھی کسی حکمراں وزیر اعلیٰ کے تئیںعوام کا اس قدرمثبت رویہ دیکھا ہو۔ بہار میں انتخابی ماحول گرمانے کے ساتھ میں نے حال ہی میں پٹنہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں کا دورہ کیا۔ حکومت کی بے حسی اور غلط حکمرانی سے متعلق  رائے دہندگان میں انتخابات کے وقت عموماً جو ناراضگی پائی جاتی ہے، وہ یہاںقطعی نظر نہیں آئی۔ اس کے بجائے دھول بھرے گاؤں میں عورت  اورمرد، نوجوان اور بوڑھے، ہندو اورمسلم، اعلیٰ ذات اوردلت نتیش حکومت کی کامیابیاں گناتے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا معاملہ ہو، اسکولوں اوراسپتالوں  پر گفتگو ہو یا پھر گاؤں میں بجلی پہنچنے کی باتیں ہوں، نتیش راج میں ترقی کا پیمانہ بننےوالی یہ کامیابیاں لاکھوں بہاریوں کی زبان پر ہیں۔‘‘
    لوک سبھا الیکشن میں ہزیمت کے فوراً بعدلالو، نتیش اور کانگریس نے جس طرح بروقت ہوش کے ناخن لینےکا مظاہرہ کیا، اس نے عوام کا تذبذب اسی وقت ختم کردیا تھا۔ اسی دن سے بہار کےانتخابی نتائج کااندازہ ہوگیا تھا لیکن مودی کے حواری پروپیگنڈے کی طاقت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ بھگوا محاذ نہ صرف مقابلے میں ہے بلکہ اسے سبقت بھی میسر ہے۔ حالانکہ یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ آخر کن بنیادوں پر اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں؟  لوک سبھا الیکشن میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر مودی کی لہر چل رہی تھی، بی جے پی اوراس کی اتحادی جماعتوں کو مجموعی طور پر ۳۸؍ فیصد ہی ووٹ مل پائے تھے، پھر آج جبکہ اس مقبولیت میں کافی کمی آچکی ہے، کس طرح انتخابی سرویز میں اسے پہلے سے بھی زیادہ ووٹ ملنے کی بات کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اُس الیکشن میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کو مجموعی طور پر     ۴۵؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ظاہر ہے کہ لوک سبھا کے بعد سے اب تک ان تینوں جماعتوں کی مقبولیت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات نتیش کے مخالفین بھی جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف سرویز میں جن میں بی جے پی کو سبقت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی نتیش کو بہتر وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کرنے کیلئے مجبور ہیں، ایسے میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ سیکولر محاذ کو لوک سبھا  سے کم یعنی ۴۵؍ فیصد سے بھی کم ووٹ ملیںگے؟
    سچ تو یہ ہے کہ اتحاد کے بعد ہی یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوگی لہٰذا ان کی جیت یقینی ہے۔لالو اور نتیش کی اپنی اپنی مقبولیت ہے۔ سماج پر دونوں کے اپنے اثرات ہیں اور بہت مضبوط ہیں۔ ایسے میں کانگریس کے ساتھ نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اس کی وجہ سے عوام کا تذبذب ختم ہوگیا تھا۔ میڈیا اپنے طور پر لالو کی کتنی بھی برائی کیوں نہ کرلے، عوام کے دلوں سے ان کی محبت ختم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی انتخابات میں ایک موقع ایسا آیاتھا جب   لالو کو بہت کم یعنی ۱۸ء۸۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے ، ورنہ  ۲۰۰۰ء سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں لالو کی پارٹی ہی کو ریاست میں سب سے  زیادہ ووٹ ملتے رہے ہیں۔۲۰۱۰ء میں لالو کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی گئی تھی جس میں کانگریس بھی شامل تھی۔
      بی جے پی نے اِس مرتبہ۳؍ محاذ پر اپنی  پوری توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اول یہ کہ نتیش کو کسی طرح لالو سے متنفر کیا جائے تاکہ یہ اتحاد ختم ہوجائے، دوم یہ کہ لالو کے خلاف ایک بار پھر جنگل راج کی ترکیب استعمال کی جائے تاکہ عوام متنفر ہوں اور سوم یہ کہ اہل بہار کو بتایا جائے کہ وہ قابل حکمراں ثابت ہوںگے لیکن یہ تینوں باتیں اس کے خلاف ہی گئیں۔ لالو اور نتیش کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اسی طرح جنگل راج کا پروپیگنڈہ بھی پوری طرح سے بے اثر رہا۔  بہار کے عوام یہ بات اچھی طرح جاننے لگے ہیں کہ جس پارٹی کا سربراہ ہی تڑی پار ہواورمجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے جیل کی ہوا کھا چکا ہو، وہ دوسروں کی برائی کرنے کا حق بھلا کس طرح رکھتا ہے؟ ویسے یہ بات بھی درست ہے کہ بہار اور اترپردیش کے عوام معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن ان کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا تسلیم کرتی ہے۔ بطور وزیر ریلوے لالو کی کارکردگی کا جادو آج بھی عوام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور لوگ ان سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لالو ریلوے وزیر تھے۔ اسی طرح نتیش کی حکمرانی کی تعریف ان کے ناقد بھی کرنے  پر مجبور ہیں۔
    ایک جانب جہاں بہار میں لالو اور نتیش کی اپنی مقبولیت ہے، وہیں دوسری جانب مودی اینڈ کمپنی کے تئیں عوام میں بے اعتباری اور ناراضگی بھی ہے۔ مودی حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکمرانی  سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ سرکار صرف بیان بازیوں پر یقین رکھتی ہے۔ اچھے دنوں کا وعدہ کیاتھا لیکن ملک کے حالات مزید خراب کردیئے۔ مہنگائی پوری طرح بے لگام ہوگئی ہے،دال کو ڈرائے فروٹ بنادیا گیا ہے۔ عوام کے منہ سے نوالے چھینے جانے لگے ہیں۔غریبوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف امیروں اور کارپوریٹ گھرانوں کیلئے کام کئے جارہے ہیں۔ یہ صرف الزام نہیں ہے بلکہ بی جے پی نے خود ہی اپنی ایسی شناخت   بنائی ہے۔ تحویل اراضی بل کے تئیں بی جے پی کی ہٹ دھرمی نے اس پہچان کو استحکام بخشا ہے۔مودی میں انانیت اور خود سری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا مزاج پہلے بھی تھا لیکن اب  اس میں مزید سختی آگئی ہے۔ پورے ملک میں ادیبوں اور دانشوروں کے احتجاج کو اہمیت نہ دے کر بی جے پی سرکار   یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح انتخابی فائدے کیلئے بی جے پی نے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو بھی مسموم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ دادری سانحہ تو ملک کی پیشانی پر ایک داغ تھا ہی، اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے اس طرح کے کئی واقعات ہوئے لیکن بی جے پی نے ایک حکمراں جماعت کی طرح سے ان سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم کی طرح ہی کام کرتی رہی۔ اس کے اراکین آگ میں گھی ڈالنے اور ملک میں انارکی پیدا کرنے کی کوشش نہایت  بے خوفی سے کرتے رہے اور اس پر ناز بھی کرتے رہے۔
    اہل بہار کو  بی جے پی سے ناراضگی اس لئے بھی ہے کہ وہ بہار کو گجرات بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ گجرات کتنی بھی ترقی یافتہ ریاست کیوں نہ ہو لیکن اہل بہار یہ بات کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی تہذیب کا مذاق اڑایا جائے اور گجراتی تہذیب کو بہار کی تہذیب سےبرتر ٹھہرایا جائے۔مودی اور امیت شاہ پتہ نہیں کس زعم میں تھے کہ الیکشن کے دوران باربار اس بات کو دہراتے رہے کہ انہیں اقتدار ملا تو وہ بہار کو گجرات بناد یںگے۔یہ بات اہل بہار کی خود داری کو ٹھیس پہنچانےوالی تھی۔اسی طرح انتخابی ذمہ داریوں کے معاملےمیں امیت شاہ اور نریندر مودی نے بہاری کارکنوں پر گجراتی کارکنوں کو ترجیح دے کر بھی بہاریوں کے وقار کو مجروح کیاتھا۔ بہار کے مقامی لیڈر اس بات سے بہت برہم تھے کہ انتظامی سطح کی تمام کلیدی ذمہ داریاں گجراتی لیڈروں کو سونپ دی گئی ہیں۔شتروگھن سنہا نے جو کچھ کہا ہے، وہ صرف اُن کی آواز نہیں ہے بلکہ بی  جے پی کے ایک بڑے حلقے کی ترجمانی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ سب ایک خوف اور مصلحت کے تحت خاموش ہیں لیکن یہ بات ووٹر اچھی طرح محسوس کررہے ہیں۔  مودی اور امیت شاہ کی خود سری کی وجہ سے بی جے پی میں اندر ہی اندر کافی انتشار ہے۔ سشما، جیٹلی، گڈکری اور راج ناتھ کی خاموشی سے یہ بات پوری طرح واضح ہورہی ہے۔
     ریزرویشن کے موضوع پر آر ایس ایس کے مؤقف نے بھی بی جے پی کو بیک فٹ پر کھڑا کردیا ہے۔ بی جے پی اس موضوع پر کتنی بھی صفائی کیوں نہ دے لیکن وہ یہ بات کھل کر نہیں کہہ سکتی کہ وہ ریزرویشن کی حامی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو بہار میں اس کا اپنا ووٹ بینک بھی کھسک جائے گا جس پر فی الحال پوری طرح سے اس کی اجارہ داری ہے۔ یہی سبب ہے کہ مانجھی اور پاسوان کی موجودگی کے بعد بھی ریزرویشن پانےوالا طبقہ بی جے پی کے قریب جانے سے جھجھک رہا ہے۔ یہ طبقہ اس  بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مانجھی اور پاسوان اپنے لئے بھلے ہی کچھ حاصل کرلیں، ان کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ مودی کو ایسا لگا تھا کہ بہار کیلئے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار کروڑ کے پیکیج کے اعلان سے وہ بہار کو فتح کرلیںگے لیکن اہل بہار جانتے تھے کہ یہ اعلان وہی شخص کررہا ہے جو لوک سبھا الیکشن سے قبل ہندوستان کے ہرشہری کے اکاؤنٹ میں ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن الیکشن کے بعد اسی کی  پارٹی کے صدر نے اس اعلان کو انتخابی جملہ کہہ کر عوام کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ اس اعلان میں کافی کچھ فریب ہےاوراس کے ذریعہ اہل بہار کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر بی جے پی کی اس دھمکی نے زخم پر نمک کا کام کیا کہ یہ پیکیج بہار کواسی صورت میں ملے گا جب یہاں  اس کی حکومت بنے گی۔
    کل ملا کر بہار میں سیکولر محاذ کیلئے راستہ پوری طرح آسان ہے۔   ماحول مکمل طور پر آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے حق میں ہے۔ ۲؍ ابتدائی مرحلوں میں ہی بی جے پی کے حواس ٹھکانے لگ گئے تھے جس کی وجہ سے تیسرے مرحلے کیلئے اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ بی جے پی کو جو کچھ فائدہ مل سکتا تھا، وہ شروع کے ۲؍ مرحلوں میں ہی مل پاتا۔ آخری کے تینوں مرحلوں میں ہونےوالے انتخابی حلقوں میں سیکولر محاذ کا بول بالا پہلے سے ہی تھا۔ تیسرے مرحلے میں جن ۵۰؍ اسمبلی حلقوں میں الیکشن ہوا، لوک سبھا الیکشن میں تقریباً تمام سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں لیکن اس صورت میں جبکہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے ووٹ تقسیم ہوئے تھے بصورت دیگر نالندہ، پاٹلی پتر، ویشالی، سارن اور بکسر لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔’پٹنہ صاحب‘ میں شترو گھن سنہا کی اپنی مقبولیت تھی، جس کی وجہ سے بی جے پی کو کامیابی مل گئی تھی مگر اس مرتبہ ان کے مداحوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اسمبلی الیکشن میں  ان کے اپنے انتخابی حلقے میں ان کی ناراضگی کا کچھ تو اثر ہوا ہوگا۔ اسی طرح آخری کے دو مرحلوں میں جن ۱۱۲؍ اسمبلی حلقوں میں پولنگ ہونےوالی ہے، وہاں بھی لو ک سبھا انتخابات میں سیکولر محاذ کو کافی کم سیٹیں ملی تھیں لیکن  دونوں کے ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو ۱۸؍میں سے ۱۱؍ پارلیمانی حلقوں میں سیکولر محاذ کو برتری حاصل تھی۔ مطلب صاف ہے کہ ماحول کے ساتھ ہی اعداد وشمار بھی گواہی دیتے ہیں کہ بہار کے ودھان بھون پر بھگوا لہرانے کا بی جے پی کا خواب کسی صورت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔
    بلاشبہ بی جے پی نے اس مرتبہ بھی کافی محنت کی ہے لیکن اس محاذ پر نہیں کی جہاں اسے کرنا چاہئے تھا۔ لالو نے بالکل درست کہا کہ اگر ڈیڑھ برسوں میں مودی  جی کچھ کام بھی کرلئے ہوتے توانہیں پرچار منتری نہیں بننا پڑتا۔ ایک جائزے کے مطابق بی جے پی نے انتخابات کے اعلان سے کئی ماہ قبل ہی ایک ایک بوتھ کے ذمہ داران طے کردیئے تھے اوراس طرح پورے بہار میں ۳؍ لاکھ کارکنان مقرر کر رکھے تھے لیکن کاش ! بی جے پی کے ذمہ داران سمجھتے کہ کامیابی کیلئے یہ باتیں صرف جزوی اہمیت کی حامل   ہیں۔  بہرحال بہار کے انتخابی نتائج دور رَس ہوںگے۔ اس کے اثرات جہاں آئندہ سال ہونے والے مغربی بنگال  کے اسمبلی الیکشن پر پڑیںگے وہیںاس کے بعد  ہونےوالے یوپی کے انتخابی رجحان پر بھی نظر آئیںگے اور ان سب سے زیادہ مرکزی حکومت کے تیوروں پر پڑے گا جو لوک سبھا میں اکثریت مل جانے کے سبب مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اب تو ہر کسی کو بس ۸؍ نومبر کا انتظار ہے۔

No comments:

Post a Comment