Friday 13 November 2015

Roznaamcha_Imam aur Khateeb


 امام اور خطیب
 
گزشتہ دنوں وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں جس کے زیادہ تر اراکین علم دوست ہیں، ایک صاحب نے گروپ ممبران سے کہا کہ’’کبھی ہمارے علاقے میں جمعہ کی نماز پڑھنے آئیں، ہمیں امید ہے کہ آپ دوبارہ وہاں نماز پڑھنے کی زحمت نہیں کریںگے۔‘‘ یہ سن کر بہت عجیب سا لگا۔ پہلے تو  ذہن میں یہی سوال آیا کہ کیا ہمیں اس طرح کا اظہار خیال کرنا چاہئے؟ لیکن جب ان کے الفاظ پر غور کیا تو  اُن کے کرب کا اندازہ ہوا۔ بلاشبہ یہ بات یوں ہی سرسری طور پر نہیں کہہ دی گئی ہوگی بلکہ یہ کہنے سے قبل ان کا دل خون کے آنسو رویا ہوگا۔کئی جگہوں پر ہمیں بھی  اس کا اندازہ ہوا ہے اور ہم نے بھی یہی بات محسوس کی ہے اور بسا اوقات اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور بھی ہوئے ہیں کہ آئندہ کہیں اور نماز پڑھیں گے ۔
    نمازجمعہ میں خطبہ کا سننا واجب ہے۔ خطبے کے ساتھ ہی ہمارے یہاں تقریر اوربیان بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں اس طرح کے مواقع میسر ہیں۔ نماز جمعہ ہی کے بہانے ہمیں ہر ہفتے ایک ساتھ مل بیٹھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اسلام میں کوئی حکم، کوئی رکن اور کوئی عبادت حکمت سے خالی نہیں۔ بلاشبہ نماز جمعہ میں ہونے والے ’بیان‘کی بھی  بہت ساری حکمتیں ہیں جن میں ایک اہم حکمت یہ ہے کہ اس موقع پر ضروری پیغامات کو سماج تک آسانی سے پہنچادیا جائے۔
     لیکن بہت افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم مساجد میں ’بیان‘ کا مثبت استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ تر مساجد میں دوسرے مسالک کی خامیاں اجاگر کی جاتی ہیں اور  اس قدر اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں کہ بسا اوقات فساد کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسا قصداً کرتے ہیں تو کچھ جہالت کی بنا پر کرتے ہیں۔  قصداً وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے مذہب کو تجارت بنا لیا  ہے اوراس کی وجہ سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جو مال بکتا ہے، وہاں وہی بیچا جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد یہی کچھ سننا چاہتی ہو۔ اسی طرح کچھ ’عالم‘ اپنی جہالت کی بنا پر خطیب کے منصب کا غلط استعمال کرتے ہوئے ’اوٹ پٹانگ‘ بکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ نماز جمعہ میں خطبہ اور بیان سننے کیلئے بہت کم مقتدی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ۲؍رکعت پڑھنے کیلئے ہی آتے ہیں۔ ہم سب انہیں کوستے  ہیں اور طنز بھی کستے ہیں کہ یہ۲؍ رکعت کے نمازی ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ یہاں  خطبے کی سماعت میں مقتدیوں کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے؟  مساجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ داران اگر تھوڑا سا بھی نظر گھما کر اور بلا لحاظ مسلک  ان مساجد کی جانب دیکھیں جہاں خطبہ سننے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جہاں پڑھے لکھے اور صاحب شعور افراد جمع ہوتے ہیں ، تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں کے خطیب کیاکہتے ہیں؟ مساجد میں مسالک سے متعلق تعصب کی باتوں کو بیشتر غلط سمجھتے ہیں لیکن یہ سلسلہ اسلئے جاری رہتا ہے کیونکہ اس پر وہ خاموش رہتے ہیں    ۔

No comments:

Post a Comment