Saturday 4 June 2011

ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 یوگا گرو کا بھوک ہڑتال پر بیٹھنا اور حکومت کا انہیں منانے کی کوشش کرنا
 ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 مگر ’ اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں ‘کے مصداق کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس نے جو ایجنڈہ تیار کیا تھا، اسے بی جے پی نے اُچک لیا۔ان حالات میں حکومت چاہے تو بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ ہوکر  اپنی اس ناکامی کاازالہ کرسکتی ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ  بابا رام دیو کو منانے کے بجائے بدعنوانوں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ بدعنوانی کا قلع قمع ہوسکے۔

قطب الدین شاہد
زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی ہماری رہنمائی کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ شخص جو پِٹ رہا ہے، یہی اس ڈرامے کا خالق و ہدایت کار ہے۔ یہ جو کہتا ہے، وہی دوسرے فنکارکرتے ہیں۔‘‘ اُس وقت  ہماری سمجھ میں یہ بات آئی نہیں کہ یہ شخص جو اس ڈرامے کے زیر و زبر کا مالک ہے اور تمام کردار جس کے اشارے کے محتاج ہیں،بھلا خود کیوں پِٹ رہا ہے؟ استفسار پرہمارے دوست نے بتایا کہ یہ اسکرپٹ کا ڈیمانڈ ہے اور یہ کہ ایسا کرکے ہی وہ سامعین سے داد تحسین حاصل کرسکتا ہے......اُس وقت شعور پختہ نہیں تھا، لہٰذابات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی......مگر گزرتے وقت کے ساتھ ڈرامہ اور اسکرپٹ کی اہمیت کاادراک ہوا اور یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ڈرامہ تو ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن کر رہ گیا ہے۔
     ان دنوں ہم سب کو ایسے ہی ایک  ڈرامے سے سابقہ پڑ رہا ہے، جس کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک حکومت اور دوسرے بابا رام دیو۔ اس کے جزئیات کا بغو ر مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ہائی پروفائل ڈرامہ ہےجو اسکرپٹ کے ڈیمانڈاور سامعین (رائے دہندگان) سے داد تحسین پانے کی غرض سے اسٹیج کیا گیا ہے۔ فی الحال اس ڈرامے کی کچھ ہی  باتیں سمجھ میں آرہی ہیں کیونکہ ابھی بہت کچھ صیغۂ راز میں ہے، تاہم  امیدکی جانی چاہئے کہ وقت کے ساتھ پورا منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔
    دراصل کچھ دنوں قبل انا ہزارے اور  ان کی ٹیم نے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک چھیڑی تھی۔اس تحریک کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے برسرِاقتدارطبقے کے خیمے میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ حکومت کو اپنی میعاد مختصر لگنے لگی تھی۔ بروقت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت دو قدم پیچھے ہٹی تھی اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی اس نے یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ اس کاانتقام ضرور لے گی۔بابارام دیو کاظہور اسی انتقام کاایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی کارروائی  ہے جس کے ذریعہ حکومت نے ان تمام لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے جوکسی بھی طرح بدعنوانی کے موضوع پر حکومت کو گھیرنےکی سعی کرچکے ہیں۔ ورنہ اُن کی آمد پر سرخ قالین بچھانا، چارچار نہایت اہم وزرا کے ذریعہ ان کا خیر مقدم کرنا اور وزیراعظم کا انہیں منانے کی کوشش کرنا..... یہ سب کیا تھا آخر؟ کیا حکومت بابارام دیو کے پس منظر سے واقف نہیں ہے؟ آخرانہیں اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی؟ ذرا چلمن کے پار جھانکنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان ہنگامہ آرائیوں کے پس پشت بابا کو ان کے قد سے بڑا کرنے  اور انہیں انا ہزارے کے برابر کھڑا کر نے کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں تھی۔
    یوگا گرو کو منانے کی حکومت کی کوششوں پر ڈرامے کا گمان اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اسی حکومت نے بابا سے قدرے بہتر شبیہ رکھنے والے انا ہزارے اور ان کی ٹیم کو نہ صرف یہ کہ اہمیت نہیں دی تھی بلکہ بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش بھی کی تھی اور ابھی بھی کررہی ہے۔ یکے بعد دیگرے اس ٹیم کے  تمام اراکین پر کیچڑ اچھا لے گئے۔ یہاں تک کہ ان الزام تراشیوںسے تنگ آکر کرناٹک کے لوک آیکت سنتوش ہیگڑے نے اس تحریک سے کنارہ کشی کا فیصلہ تک کرلیا تھا۔ ہیگڑے کے خلاف کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کا الزام.... الزام برائے الزام تھا ورنہ یہ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ کرناٹک کے لوک آیکت کرناٹک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں کرسکے تو انہیں لوک پال کی تحریک نہیں چلانی چاہئے۔ اس موضوع پر دگ وجے سنگھ کو کچھ کہنے سےقبل اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے کانگریس کو مشورہ دینا چاہئے تھا کہ آزادہندوستان میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی  یہ جماعت جب ملک سے غربت، فرقہ واریت اورعدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکی تو اسے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے  دستبردار ہوجاناچاہئےبلکہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہئے۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضۂ کے طور پر آگئیں ورنہ اپنا موضوع بابار ام دیو اور حکومت بالخصوص کانگریس کا ڈرامہ تھا۔
    ہم سے زیادہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ رام دیو کی عوامی شبیہ صاف ستھری نہیں ہے۔شدت پسند ہندوتوا تحریک کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر اور بھی کئی سنگین الزامات ہیں۔قارئین جانتے ہیں کہ ان کی لیباریٹری میں بننے والی دواؤں میں جانوروں حتیٰ کہ انسانی جسم کی ہڈیوں کے ملنے کے الزامات لگ  چکے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے کہاتھا کہ یوگا کے ذریعہ ایڈس کی روک تھام کی جاسکتی ہے، تب بھی وہ عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ اس سے قبل ان پر اپنے ملازمین کے استحصال کا الزام بھی لگ چکا تھا جب مارچ ۲۰۰۵ء میں دِوّیہ یوگا مندر ٹرسٹ کے۱۱۳؍ ملازمین نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھوک ہڑتال کی تھی۔یہی وجوہات ہیں، جن سے اندازہ تھا کہ رام دیو کو بدعنوانی کے خلاف تحریک کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی، جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوملی تھی۔ وجہ صاف ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ رام دیو کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی حمایت میں اگرکہیں کچھ لوگ سڑک پر آتے بھی ہیں تووہ یقیناً آر ایس ایس کے گرگے ہوںگے جو رام دیو کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوپی اے حکومت پر نشانہ سادھنے کی کوشش کریںگے۔
    کہاجاتا ہے کہ بابار ام دیو کو کانگریس نے ہی بھوک ہڑتال کیلئے اکسایا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ وہ پہلے ایک ’سنسنی‘ پیدا کرے گی اورموقع معقول پاکر اسے بھنانے یعنی بابا کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرے گی اورانہیں بتائے گی کہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے اور اس طرح وہ بابا کو ’رام‘ کرلے گی۔حکومت کے منصوبے کے مطابق اس سے عوام و خواص میں یہ پیغام جائے گا کہ بدعنوانی کے خلاف حکومت   بہت سنجیدہ ہے۔ دراصل حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اول یہ کہ بابا کو ’خوش‘ کرکے وہ ان کےہمنواؤں کو بھی اپنے پالے میں کرلے گی، جو کسی نہ کسی طرح بی جے پی کے ووٹ بینک ہیں۔ دوم یہ کہ جن لوک پال بل اوراس بہانے اناہزارے اور ان کی ٹیم کی حمایت کرنے والے   انا ہزارے اوران کی ٹیم سے متنفر ہوجائیں گے کہ یہ لوگ بلا وجہ حکومت کو بدنام کررہے ہیں۔ مگر کانگریس کے پانسے اُلٹے پڑے اوراس کی سبھی تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ بابا کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کانگریس کے ایجنڈے کو آریس ایس ایس اور بی جے پی نے اچک لیا۔ اور  ایساکیوں نہ ہوتا؟ رام دیو کی وہاںسے پرانی وفاداری جو ہے۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے جتنی توانائی بابا کو منانے پر صرف کی، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اگر اس کا عشر عشیر بھی محنت کرتی تو اس جِن کو بوتل میں قید کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہوتا جو آج ہمارے سماج میں دندناتا پھررہا ہے۔
    حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈرامہ بازی پر نہیں بلکہ حقائق اور عمل پر یقین کرے........ اوراگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو... یہ ذمہ داری عوام پرعائد ہوتی ہے کہ  وہ حکومت کو یہ باورکرائیں کہ ان کا شعور پختہ ہوچکا ہے، اور یہ کہ وہ حقائق اور ڈرامے میں تمیز کر نا اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔

No comments:

Post a Comment