Saturday 11 June 2011

رام دیو کی رام لیلا

 
رام دیو کو رام لیلا سے ہردوار پہنچانا اچھا فیصلہ تھا.....
 
جو ہوا، اچھا ہوا، مگر جس طرح ہوا، و ہ اچھا نہیں ہوا!!
 
رام دیو کی حرکتوں کودیکھتے ہوئے انہیںرام لیلا میدان سے ہٹانا ضروری تھا لیکن جس طرح راتوں رات انہیں ہٹایا گیا، وہ کسی بھی طرح درست نہیں تھا۔ ایک جمہوری ملک میں قطعاً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یقیناً اس میں قصور رام دیو کا بھی ہے لیکن اس سے کہیںزیادہ قصور حکومت کا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یوگا گرو کو شروع سے وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو انہیں حکومت کی جانب سے دی گئی...... وہ کسی بھی طرح اس تکریم کے حقدار نہیں تھے....اس کے باوجودانہیں ہردوار پہنچانے کیلئے جو طریقے استعمال کیے گئے، وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں کہے جاسکتے۔
 قطب الدین شاہد
منزل کا تعین نہ ہو تو سفر میں کتنی بھی بھاگ دوڑ کی جائے وہ بے سود اور سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح ان دنوںمرکزی حکومت بھی اندھیرے میںٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آرہی ہے۔ رام دیو معاملے میں اس کے اقدامات میں کسی طرح کی منصوبہ بندی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی.... ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے سمت کااندازہ کئے بغیر دوڑ لگانی شروع کردی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ وہ کر کچھ اور رہی ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہے۔
    ۴؍جون کی نصف رات کو نہایت عجیب و غریب طریقے سے حکومت نے بابا رام دیو کو دہلی کے رام لیلا میدان سے اٹھا کر ہردوار پہنچادیا۔ایسا کیو ں ہوا؟ اس سے تقریباً وہ تمام لوگ واقف ہیں،جو رام دیو کے پس منظر اور کانگریس کی نفسیات سے واقف ہیں۔رام دیو کچھ بھی کریں یا کہیں..... ان کی تان بالآخرآر ایس ایس کی حمایت پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ اسی طرح کانگریس کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس سے اسے کام نکالنا ہوتا ہے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور جیسے ہی اس کا مفاد پورا ہوتا ہے، اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتی ہے....... یہی وجہ ہے کہ حکومت کیلئے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں رہا کہ ایسا کیا ہوگیاکہ ایک روز قبل سرخ قالین بچھا کر استقبال کی جانے والی اور چارچار اہم وزراء کے ذریعہ خیر مقدم کرائی جانے والی شخصیت اچانک معتوب قرار دے دی گئی....اور معتوب بھی کچھ اس طرح کہ جس شخص کی کل تک وزیراعظم منت سماجت کرتا نظر آتا تھا،اسے معمولی پولیس اہلکاروں کے خوف سے زنانہ لباس اختیار کرکے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔رام دیو کی جو خامیاں حکومت آج بیان کررہی ہے، وہ اس شخص کے اندر راتوں رات نہیں پیدا ہوئیں بلکہ وہ پہلے سے تھیں اور ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کررہا تھا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں اس لیے نہیں رینگ رہی تھی کہ اس شخص سے حکومت کے مفاد پر کوئی ضرب نہیں پڑتی تھی بلکہ کہیں نہ کہیںوہ اس کے مفاد میں معاون ہی ثابت ہوتا تھا۔
    سچی بات تو یہ ہے کہ اول تا آخر رام دیو اسی سلوک کے حقدار تھے......مگر یہاں ایک رام دیو ہی کیا......اس طرح کے عناصر کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر غیر سماجی ہوجاتی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ، وہ آزادانہ طور پر یہاں سے وہاں دندناتے پھرتے ہیں۔حکومتیں عموماًان کی سرپرستی کرتی ہیں اوران پر ہاتھ تبھی ڈالتی ہیں جب وہ ان کی اطاعت سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میںکچھ اسی طرح کی بات نظر آتی ہے۔ ۴؍ جون کی نصف شب میں رام دیو کے خلاف ہونے والی کارروائی اوراس کے بعد حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات سے بظاہر یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یوگا گرو کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے..... اگر ایسا ہے تو اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے...... لیکن اسی کے ساتھ حکومت کے اس رویے کی مذمت بھی ہونی چاہئے کہ ..... کسی کے خلاف کارروائی اس وقت کیوں، جب وہ حکومت یا کسی خاص جماعت کا مہرہ بننے سے انکار کردے؟ یہ کارروائی اسی وقت کیوں نہیں ہوتی جب وہ جرائم کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کے جرائم آشکار ہوتے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پر کئی سنگین الزامات لگائےہیں۔ آئیے ان الزامات کاا یک سرسری جائزہ لیتے ہیںا ور اس کی روشنی میں حکومت کی ’سنجیدگی‘کااندازہ لگاتے ہیں۔ حکومت نے رام دیو پر آر ایس ایس کے اشارے پر ناچنے کاالزام عائد کیا ہے۔  یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ رام دیو نے بھی کبھی اسے مخفی رکھنے کی کوشش کی ہو۔ اب اگر کل کانگریس یہ ’سنسنی خیز انکشاف‘ کرے کہ مودی آر ایس ایس کے مہرے ہیں توکیا ہمیں اس پر بغلیں بجانی چاہئیں؟ ویسے تعزیرات ہند کے لحاظ سے کسی کے اشارے پر ناچناکوئی جرم نہیں ہے، لہٰذا یوگا گرو کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ان کی سرگرمیاں مجرمانہ ہیں تو پھر ضرور ان کے خلاف کارروائی ہو نی چاہئے مگر اس صورت میں رام دیو کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس کی قیادت والی حکومت ایسا کرے گی؟
    رام دیو پر دوسرا الزام فرقہ پرستی کا ہے۔حالانکہ حکومت اسے الزام کہتی ہے مگر سچائی تو یہ ہے کہ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ محض آٹھویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کرنے والے یوگا گرو سنِ بلوغیت تک پہنچنے سے لے کر اب تک  فرقہ پرستانہ خیالات رکھنے والوں کے ساتھ ہی اُٹھتے بیٹھتے رہے ہیں اور ان کے ’کاز‘ کی کھلی حمایت کرتے رہے ہیں۔سنگھ پریوار کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے رام دیو نے بھی بابری مسجد کی جگہ پر غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے رام مندر بنائے جانے کی وکالت کی  ہے اوران عناصر کی حمایت و سرپرستی کی ہے جو فرقہ پرستانہ مہم چلا کر ملک کی فضا مکدر کرتے رہے ہیں۔اگر اسے بنیاد بنا کر رام دیو کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انہی بنیادوں پر یہ حکومت ان کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو رام دیو کے نظریہ ساز رہے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پربدعنوانی کاا لزام بھی لگایا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بہت معمولی عرصے میں ایک ایسے شخص نے جس کے لئے دونوں وقت کے کھانے کاانتظام کرنا بھی مشکل تھا، ۱۱؍سو کروڑ روپوں کی ’امپائر‘ کیسے کھڑی کرلی ؟سوال بالکل درست ہے اوراس کی تہہ تک پہنچانا لازمی ہے..... مگر یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ رام دیو پر بدعنوانی کا یہ الزام ۴؍ جون کے بعد ہی نہیں لگا ہے بلکہ عوامی سطح پر اس طرح کی چہ مگوئیاں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت بھی اس سے واقف رہی ہوگی۔ ایسے میں اس بدعنوان شخص کے خیر مقدم کے لئے ۳؍ جون کوحکومت نے ۴؍ ۴؍ اہم وزراء کو کیوں کر تعینات کررکھا تھا جو بڑی بے صبری سے ایئر پورٹ پر ’بابا‘ کے دیدار کیلئے پلکیں بچھائے کھڑے تھے۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں معمولی عرصے میں اس طرح کروڑوں کی ملکیت جمع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ وہ حکومت کی نظرعنایت سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تعلق سے بھی یہ بات عام ہے کہ ان کے یہاں مالی شفافیت کا فقدان پایا  جاتا ہے۔ بالخصوص رام مندر تحریک کے ذریعہ جمع ہونے والی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کیا حکومت ان معاملات کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گی؟
    دگ وجے سنگھ نے رام دیو پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ دگ وجے سنگھ حکومت کے نہیں مگر برسراقتدار جماعت کے ایک اہم رکن ہیں، لہٰذا ان کے بیان کو حکومت کا بیان سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دگ وجے سنگھ کے الزام بہت سنگین ہیں....لہٰذا اس پر فوری کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہےکہ کیا حکومت نے واقعی اس معاملے میں کچھ ثبوت جُٹا لیے ہیں، یا یہ صرف ایک زبانی جمع خرچ ہے۔یہ شک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دگ وجے سنگھ ’شوشے‘ چھوڑنے میں ماہر ہیں۔ بسا اوقات ان کے ’شوشوں‘ میں صداقت بھی ہوتی ہےلیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔اس کی واضح مثال سخت گیر ہندتوا کی دہشت گردی کا معاملہ ہے۔ دگ وجے سنگھ بہت پہلے سے اس کا ’انکشاف‘ کرتے رہے ہیں مگر وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں صرف اسی طرح کے بیانات دینے پر مامور کررکھا ہے تاکہ اس سےعوامی رد عمل کا اندازہ لگاتی رہے اور جہاں اسے مناسب لگے کارروائی بھی کرے۔
    یعنی مطلب صاف ہے ۔ رام دیو کے خلاف حکومت کی کارروائیاں اس لئے ہورہی ہیں کہ اس شخص نے کانگریس کا مہرہ بننے کے بجائے آر ایس ایس کا مہرہ بننے کو ترجیح دی۔بڑے تام جھام سے کانگریس نے یوگا گرو کو انا ہزارے کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس ’شخص‘ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔یہاں ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب حکومت رام دیو کے تمام کچے چٹھوں کا حساب لے گی۔ قطعی نہیں.....یہ کارروائیاں بلکہ یہ دھمکیاں اسی وقت تک ہیں، جب  تک یہ ہنگامے تھوڑے سرد نہیں پڑ جاتے۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رام دیو کے ذریعہ مسلح فوج بنانے کی بات ہی اسے تاعمر قید خانے میں زندگی گزارنے پر مجبور کرسکتی تھی لیکن حکومت نے اس کا نوٹس اس طرح لیا ہی نہیں جس طرح لیا جانا چاہئے تھا.... ذرا غور کیجئے کہ رام دیو کی جگہ پر کوئی شیخ یا خان نے اس طرح کی بات کی ہوتی تو کیا ہمارے وزیرداخلہ اسی طرح کی تنبیہ کرتے کہ ’پہلے فوج بناؤ، ہم بعد میں نمٹیںگے‘۔ مطلب یہ کہ ہائی پروفائل ڈرامہ ابھی جاری ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عوامی ردعمل کس طرح کے ہوتے ہیں؟ رام دیو کی عوامی حیثیت نہ تو پہلے ہی تھی اور نہ ہی اب ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت سے عوام کس طرح نمٹتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment