Saturday 25 June 2011

تعلیمی پسماندگی اور ہم

اکیسویں صدی اور ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی
اکثریتی فرقے سے سوا کام کرکے ہی کوئی اقلیت سرخرو ہوسکتی ہے
 اپنی پسماندگی کا رونا ہم بھی روتے ہیں اور کبھی کبھی حکومت بھی مگر مچھ کے آنسو بہاتی نظر آتی ہے لیکن..... سچ پوچھیںتو اس پسماندگی سے باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش
 نہ ہماری جانب سے ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے۔ ہمیں ہرگز ہرگز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا تعلق ایک  اقلیتی فرقےسے ہے اور
 کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی فرقے سے سوا کام نہ کرے۔

قطب الدین شاہد
بلاشبہ ہم  نے تعلیمی ترقی کی ہے۔حالیہ چند برسوں میں ہماری تعلیمی شرح اور ہمارے تعلیمی معیار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ تنویر منیار، بلال مستری، زرین انصاری ، رضوانہ انصاری، الماس سید، مولانا وسیم الرحمن  اور ڈاکٹر فیصل جیسے کئی ستارے آسمان تعلیم پر جگمگائےہیں ......لیکن ان سب کے باوجود اس کارکردگی کو اطمینان بخش ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ہمارا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے ہے اور کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی  فرقے سے سوا کام نہ کرے۔ لہٰذا ان چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہماری حالت تبدیل ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔
    سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام   پر آنے سے قبل ہی ہمارے دانشوروں  اور مدبروں نے اس مرض کی تشخیص کرلی تھی اورصاف صاف کہہ دیا تھاکہ ہماری (مجموعی) پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی  ہے۔  پوری طرح سے ہم اسے اپنی غفلت اور تساہلی کا نام بھلے ہی نہ دیں لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس کیلئے حکومت ہی مکمل ذمہ دار نہیں ہے۔سچر کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد ایک ٹیلی فونک گفتگو میںکمیٹی کے ایک  اہم رکن اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد نے کہا تھا کہ ’’رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے مسلمانوں کو یقینا فائدہ ہوگا..... اس لئے نہیں کہ حکومت کچھ کرے گی.... بلکہ اس لئے کہ ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری کمزوری کیا ہے اور ہمیں کہاں زیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘
    یقینا یہ بات ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ ہم چاہتے تو سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنی پسماندگی دور کرسکتے تھے۔مذکورہ کمیٹی نے اپنے مشاہدے میں یہ بات کہی ہے کہ تعلیم کے تئیں عام مسلمانوں میں جوش و خروش خوب ہے مگر معاشی پسماندگی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے لئے کمیٹی نے حکومت سے چند سفارشات بھی کی ہیں..... لیکن جیسا کہ سید حامد صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اس جانب خود قدم بڑھانے کی ضرورت تھی.....بلکہ ضرورت ہے۔تسلیم کہ ہمارے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے یہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جنہیں صاحبِ دولت، صاحب ِ ثروت  اور صاحبِ حیثیت کہاجاتا ہے۔ ہاں!کمی ہے تو اُن کے اخلاص میں ، ان کے احساس میں اور ان کی سنجیدگی میں۔ مستثنیات  سے قطع نظر ان کی اکثریت  قوم کے تئیں بے حس نظر آتی ہے۔  ان حالات میں اگر کہیں سے یہ خبر آئے کہ فلاں جگہ چند  افراد نے قوم کی تعلیمی کفالت کا بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے تو یقینا ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبریں حبس زدہ کمرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کا مزہ  دے جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے برسات کی اندھیری رات میں کوئی جگنو روشنی بکھیر تے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہو کہ اندھیرے کاقلع قمع کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی اور ا نفرادی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
     اگر ہم اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں کہ قوم کو صد فیصد تعلیم یافتہ بنانا اور انہیں کسی قابل بنانے میں حائل تمام دشواریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کرنی ہوگی ، خواہ یہ بساط چھوٹی ہی کیوں نہ  ہو..... البتہ اپنے عزم سے ہمیں ثابت کر نا ہوگا کہ ہمارا تعلق کشتیاں جلا دینے والی قوم سے ہے۔
      یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ اسے ہم  قول و فعل کا تضاد کہیں  یامنافقانہ رویہ..... کہ مجلسوں میں ہم قوم کی تعلیم پر ٹسوے بہانے سے بالکل دریغ نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑتی ہے توآٹھ آٹھ آنسو بھی رولیتے ہیں مگر جب بات عملی مظاہرے کی ہوتی ہے تو  اپنے اپنے بلوں میں جا گھستے ہیں یا دوسروں کامنہ دیکھنے لگتے ہیں...... آج ہمارے سماج کا یہی  حال ہے۔ اس طرح کی خبریں اکثر سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ دسویں  یا بارہویںمیں ۹۰؍ فیصد سے زائد مارکس حاصل کرنے والا طالب علم محض اس لئے گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے والد کی تہی دامنی کااحساس ہوتا ہے، وہ نہیں چاہتا یا چاہتی کہ اس کے والد اس کیلئے دردر بھٹکیں اور ذلیل و خوار ہوں..... اور بعض تو رسوا ئی  کے بعد  ہمت ہارتے ہیں۔
    یہ کوئی کہانی نہیںہے بلکہ حقیقتاً اس طرح کے بہت سارے واقعات ہر جگہ اور ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو اچھے کفیل مل جاتے ہیں، وہ کسی طرح داخلہ پاجاتے ہیں اور بعدمیں سرخرو بھی  ہوتے ہیں مگربہت  سے طلبہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ اپنے ارمانوںکو  بھی پی جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے چادر کی تنگی سے واقف ہوتے ہیں  اور قوم کے رویے سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر طرح سے اہل ہونے کے باوجود وہ ذہین بچے داخلہ نہیں لے پاتے..... اور اس طرح  قوم کے ایک ذہن کو کھلنے سے قبل ہی بندکردیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس سے قوم کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔
    ممبئی ہو، دہلی ہو، کولکاتہ ہو لکھنؤ ہو یا دیگر چھوٹے  بڑے شہر اور قصبے ۔ تقریباً ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ دیہاتوں کی حالت تو مزید ابتر ہے۔ ہماری قوم میں یقیناً بعض ایسے ٹرسٹ  ہیں اور بعض مخیر حضرات بھی جو تعلیمی کفالت کی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے..... بلکہ سچ کہا جائے تو یہ کہ جب کبھی انہیں شمار کرنے بیٹھیں توایک دو سے بات آگے بڑھانی مشکل ہوجاتی ہے۔  
    ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہزاروں روپئے پھونک دیئے جانے کی بدعت اب متوسط طبقے میں بھی وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔ شادیوں میں فضول خرچی اور جھوٹی شان کے دکھاوے میں اسراف اب عام سی بات ہے۔ انتخابی دنوں میں پیسے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کارپوریشن کے ٹکٹ اور چھوٹے موٹے سیاسی عہدوں کے حصول کے نام پر لاکھوں روپے لٹانے کی خبریں بھی آتی ہیں مگر ..... افسوس کہ جب ان کے در پر کوئی شخص کوئی مقصد لے کر پہنچتا ہے.....کسی بچے کے مستقبل کی بات کرتا ہے.... تو یہ حضرات پہلے اسے بھرپور نصیحت کرتے ہیں کہ..... یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے برعکس یہ کرتے ...... وہ کرتے.....  اور پھر نصیحت ختم ہونے پر آئی تو بڑی مشکل سے چہرے کے زاویے بگاڑ کر دیئے بھی تو ہزار دو ہزار......  جب کہ اسے ضرورت ہے ۶۰؍ سے ۷۰؍ ہزار روپوں کی۔  ایسے میں دو تین جگہ جانے کے بعد ہی اکثر والدین ہمت ہار جاتے ہیں اور گھر آکر اپنے بچوں سے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مناسب ہو تو اپنے ارمانوں کانہیں تو ہمارا  گلا گھونٹ دو کیونکہ کسی کے آگے دست سوا ل دراز کرکے ذلیل و رسوا ہونے کی اب  ہم  میں مزید سکت نہیں رہ گئی ۔
    اس میں قطعی مبالغہ آرائی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے،سامنے کی باتیں ہیں ۔ ہمارے سماج میں آج یہی ہورہا ہے۔ حالانکہ وہی لوگ جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ڈینگ مارنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ قوم کی حالت پر افسوس کریں گے،  حکومت کو کوسنے کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کے طلبہ سے اپنے بچوں کا موازنہ کرتے ہوئے ’زمین بنجر‘  ہونے کا ماتم بھی کریںگے۔ اگر ان کا تعلق سیاست سے ہے تو پھر کیا پوچھنا، اسٹیج سے دھواں دھار تقریریں ہوں گی۔ پانی پی پی کر پسینے بہائیںگے اور حاضرین کو یہ احساس دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ قوم کے غم میں ان سے زیادہ دبلا ہونے والابھلا کوئی اورکہاں ہے؟
    کسی قوم کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک کہ اسے بدلنے کے کیلئے اس قوم کے افراد آگے نہیں آئیںگے۔اس تصویر کو بدلنے کیلئے حالانکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن فوری طور پریہ توکیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے زکوٰۃ اور بینکوں میں اپنے رقوم پر ملنے والے سود کو ہی اس مصرف میں لے آئیں۔ چھوٹی سطح پر دیکھا جائے تو ہر محلے کے دو چار اشخاص مل کرکسی ایک دو طالب علم کے کفیل بن سکتے ہیں۔ کتابیں اور بیاضیں تقسیم کرنے والی جماعتیں بھی  اپنے سابقہ ڈھرے سے ہٹ کر اس رقم سے طلبہ کی کفالت کرکے ہر سال ایک دو طالب علم کو پروفیشنل بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح جلسے جلوس پر خرچ کرکے سیاسی شہرت بٹورنے والی جماعتیں بھی دوچار بچوں کی سالانہ کفالت کرسکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو انشاء اللہ  ہمارے سماج میںایک انقلابی تبدیلی رونما  ہوگی۔ رہی بات تشہیر کی تو ہم بھی اس قول پر اعتبار کرتے ہیں کہ ’’جس دن نام ونمود کی خواہش ختم ہوجائے گی، فلاحی کام کم ہوجائیںگے۔‘‘ ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ رازداری برتنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ لوگ سامنے آتے ہیں اور سماج کے سامنے اس بات کاکریڈٹ لیتے ہیں کہ ’’ہم اتنے طلبہ کی تعلیمی کفالت کرتے ہیں‘‘  تو کوئی حرج نہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں یہ کریڈٹ دینی  ہی چاہئے اوراس بات کیلئے ان کی پذیرائی بھی کرنی چاہئے.....کیونکہ اگر ہمیں تعلیمی ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیمی کفیل بھی پیدا کرنے ہوںگے۔

No comments:

Post a Comment