Wednesday 17 June 2015

Kitabon k talabgaar
کتابوں کے طلبگار بہت ہیں
 
’اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘کی طرز پر ایک زمانے تک’کتابیں مانگ کر نہ پڑھیں ‘لکھا جاتا رہا ہے۔  چند سال قبل تک بعض رسائل بھی یہ طنزیہ کہ فقرہ ’اردو کے اخبار اوررسائل خرید کر پڑھیں‘ تواتر کے ساتھ لکھتے رہے تھے لیکن اب دونوں باتیں یعنی مانگ کر نہ پڑھنے کی تنبیہ اور خرید کر پڑھنے کا ’مشورہ‘ عموماً نہیں دیا جاتاکیونکہ اب تومفت میں بھی پڑھنے  لالے پڑ گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پڑھنے کیلئے اگر کوئی صاحب کتاب مانگتے ہیں، تو بھی اچھا لگتا ہے۔
    مضامین جمع کرکے اسے کتابی شکل عطا کرنا اور اسے طباعت کے مرحلے سے گزار کر بحسن و خوبی گھر تک لانا، اب زیادہ مشکل نہیں رہا جتنا مشکل اسے پڑھنے والوں تک پہنچانا ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے تو یہ تک دیکھا ہے کہ کچھ لوگ مصنف کو یہ کہہ کر کتاب واپس کر دیتے ہیں کہ ’’بھئی پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے،کسی اور کو دے دینا۔‘‘  ان کا انداز تحقیر آمیز بھی ہوتا ہے، بالکل اسی طرح،جس طرح راستے میں چلتے ہوئے حکیموں کا وزیٹنگ کارڈ لینے سے ہم اور آپ انکار کرتے ہیں۔  ایسے وقت میں مصنف کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ وہ مسکراتا ضرور ہے لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے جو کرب   پوشیدہ ہوتا ہے،اسے وہ  فنکار ہی محسوس کرسکتا ہے جس کے فن کو غیر اہم بتاکر اسے سرِ عام رسوا کیا گیا ہو۔
     ان حالات میں جبکہ لوگ گھر پہنچا کر ملنے والی مفت کتابوں کو لیناگوارہ نہیں کرتے، اگر کہیں یہ دیکھنے میں آئے کہ کتاب کی اجرائی تقریب میں پورا ہال بھر جائے اور اردو والے کھڑے ہوکر صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کریں تو اچھا لگتا ہے، ایک قرار آتا ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ۔ اس وقت انہیں چیلنج کرنے کا دل کہتا ہے جو اُردو کے تئیں مایوسی کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں ، دیکھیںاور اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔
    گزشتہ دنوں بھیونڈی میں ۲؍ کتابوں کا اجراء ہوا اور دونوں تقریبات کے حوالے سے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پہلی کتاب عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونےوالی ’دستاویز‘ تھی جس میں انہوں نے اردو کے غیرمسلم شعرا ء کا مختصر تعارف اوران کے نمونۂ کلام کو یکجا کیا  ہے جبکہ دوسری کتاب رونق افروز کی تھی جس میںانہوں نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو شامل کیا ہے۔ دونوں جگہ صاحب کتاب کی بھرپور پزیرائی ہوئی اوران کی کوششوں کو خوب سراہا گیا۔
      مذکورہ اجرائی تقریب سے دو ہفتے قبل بھیونڈی میں مزید ۲؍ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر محمود حسن  کے مضامین کامجموعہ’ مقالات محمود‘ اور محمد رفیع انصاری کے انشائیوں کا مجموعہ’غریب خانہ سجا رہا ہوں ‘کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ایک ماہ میں رونما ہونےوالی یہ چاروں تقریبات  سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُردو کتابوں کے طلبگار آج بھی بہت ہیں، مایوسی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔

No comments:

Post a Comment