Wednesday 17 June 2015

Taameer e Akhlaaq
تعمیر اخلاق
وطن عزیز میںمسلمانوں کی یہ شکایت عام ہے کہ ایک بڑا طبقہ ان سے تعصب اور کہیں کہیں نفرت کرتا ہے۔ اس شکایت میں جزوی سچائی ہوسکتی ہے لیکن یہ مکمل سچ قطعی نہیں ہے۔  اس طرح کی صورتحال کا اگر ہمیں کہیں سامنا ہے بھی تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔    یہ بات ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کی زور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے اخلاق سے پھیلا ہے۔  اس دور کےمسلمان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ، جن سے متاثر ہوکر لوگ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔ آج صورتحال بالکل معکوس نوعیت کی ہے۔ آج بھی ہم اپنے اخلاق ہی کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں مگر  اخلاق حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے سبب نہیں بلکہ اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے۔ ہمارےمحلے گندے ہوتے ہیں، ہم لین دین میں کچے ہوتے ہیں اور کاروبار میںایمانداری اور شرافت کو خسارے کا سودا سمجھتے ہیں۔    جہاں چار نوجوان گالم گلوج کرتے نظر آئیں تو لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوںگے۔ کوئی تیز بائیکر ہو یا  رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا کوئی چور ، لڑکیوں کو سر عام چھیڑنےوالا کوئی اوباش ہو یا اپنوں سے بڑوں سے اونچی آواز میں باتیں کرنے والا کوئی نوجوان، پہلی نظر میں لوگ یہی اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔  وہ اخلاق جو ہماری شناخت ہوا کرتی تھی ، جس کی وجہ سے ہم دوسروں میں ممتاز تھے اور جو ہماری سب سے بڑی طاقت تھی،  اب ہمارے سماج سے وہی خوبی مفقود ہوگئی ہے۔ 
    ہمارے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ منجملہ پوری قوم اخلاق سے عاری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہماری یہی شناخت ہے۔
    ان حالات میں ضرورت ہے کہ دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے اخلاق کو ایک بارپھر اس بلندی تک لے جانے کی کوشش کریں کہ لوگ ہم سے نفرت نہیں محبت کریں اور ہمیں دور بھگانے کے بجائے اپنے پاس بٹھائیں۔
    تعمیر اخلاق نام کی ایک تنظیم کچھ انہی مقاصد کے پیش نظر گزشتہ ۴؍ سال سے بھیونڈی میں سرگرم ہے۔ اس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتے ہوئے بھی بہت وسیع ہے۔اس تنظیم نے اخلاق کی تعمیر کیلئےاسکولوں کا انتخاب کیا اور پوری محنت پرائمری اور ہائی اسکولوں پر کررہی  ہے۔ طلبہ میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کیلئے اس تنظیم  نے ایک نصاب ترتیب دیا  ہےجس کا باقاعدہ تحریری اور زبانی امتحان لیا جاتا ہے۔ صرف چار سال میں اس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ گزشتہ دنوں اس کے تحریری مقابلے میں ۸۰؍ اسکولوں سے ۴۵۰۰؍ طلبہ اور زبانی مقابلے میں ۵؍ ہزار سے زائد بچوں نے حصہ لیا ؟
      یہ ایک بہت چھوٹی کوشش ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اور  دور رس نتائج برآمد ہوںگے۔

No comments:

Post a Comment