Wednesday 17 June 2015

Naseehat aasan, amal mushkil
نصیحت آسان، عمل مشکل
دوسروں کو نصیحت کرنا جتناآسان ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اس پر خود عمل کرنا۔ ہمارے یہاں یہی ایک چیز تو ہے جو مفت فراہم کی جاتی ہے اور نہایت فراخ دلی سے کی جاتی ہے۔ نصیحت کرنا برا نہیں ہے مگر یہ انہیںقطعی زیب نہیں دیتا جو خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں۔
     صورتحال یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے درد میںشریک ہوتے ہیں لیکن اپنے آس پاس نہیں دیکھتے۔ ہمیں روہنگیائی مسلمانوں کا غم ستا رہا ہے، ہمیں فلسطینیوں کی تکالیف بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا اور اس طرح ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور پریشان حال ہیں، انہیں دیکھ کر ہم بھی نوحہ   کرتے ہیں۔ہم نہ صرف ان کی پریشانیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہیں لعن طعن بھی کرتے ہیں جو اِ ن مسلم بھائیوں کی پریشانیوںکا سبب بنتے ہیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو اس قدر ’جذباتی‘ ہو اُٹھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے خلاف  دھواں دھار تقریریں بھی کرتے ہیں کہ وہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟  کیوں نہیںاسرائیل اور امریکہ کی اینٹ سے اینٹ  بجا دیتے؟ اور پھر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟  وہ سب تو کافر وںاور یہودیوں کے ایجنٹ  ہیں لیکن  ہم میں سے بیشتراپنے عمل کا جائزہ  لینا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور یہ کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم پر یہ الزام سچ  ہی ہے کہ ہم پوری دنیا میںاسلامی حکومت چاہتے ہیں لیکن خود پر اسلامی قانون کا نفاذ نہیں چاہتے۔
    گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست نے وہاٹس ایپ پر ایک میسیج بھیجا۔یہ پیغام ہمارے سماج کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔  وہ میسیج آپ بھی ملاحظہ کرلیں۔ ’’ گزشتہ دنوں  دوران ِگفتگو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور بین الاقوامی سیاستدانوں کی پالیسی اور  بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ایک صاحب کافی آنسو بہا رہے تھے۔ آج انہی صاحب کا فون آیا تو کسی اولڈ ایج ہوم کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ’اماں کی روزانہ کی پک پک  سے عاجزآ گیا ہوں۔ سوچتا ہوں انہیں کسی اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آؤں تو کچھ راحت ملے۔‘  میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جو شخص اپنی ماں کو  اپنے گھر میں برداشت نہیں کرپارہا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ روہنگیا  ئی مسلمانوں کے تعلق سے ملائیشیا اوردیگر ملکوں پر تنقید کرتا پھرے کہ وہ انہیں پناہ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ ہمارا سماج  اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لوگ خود اچھا بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن دوسروں کو اچھا بنانا چاہتے ہیں اور نہ بننے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔  بات اخلاقیات کی ہو یا معاملات کی، ہماری انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی جانب   ہی اٹھتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ذراسا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کسی پر تنقید کرتے وقت ہم اگر صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ اس کی جگہ پر ہم ہوتے تو کیا کرتے تو شاید ہماری کچھ اصلاح  ہوسکے۔

No comments:

Post a Comment