Wednesday 17 June 2015

Shab e Barat aur dheenga mushti
شب ِ برأت اور دھینگا مشتی
کیا یہ باعثِ شرم اور افسوس کی بات نہیں کہ شبِ برأت کی آمد کے ساتھ ہی پو لیس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہیں سیکوریٹی بڑھانے نیز نظم و نسق کی بحالی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔کیا ہم اُن چند سرپھرے نوجوانوں کو نہیں روک سکتے جن کی وجہ سے پوری قوم کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر کہ یہ تمام نوجوان اپنی پوری’مسلمانی‘ شناخت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جنہیں  پولیس شرپسند کہہ کر پکارتی ہے۔ یہ نماز روزے کی پابندی کرنے والے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ صرف کُرتے ٹوپی  پہنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری ’مسلمانیت‘ اسی میں ہے۔  ان بیچاروں کو  یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے اُن کی کیا جواب دہی ہے۔
    یہ رات میں بائک  دوڑاتے ہیں ، بے مقصد دوڑاتے ہیں اور خوب تیز دوڑاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ان پر کم،ان کے والدین اوران کے محلوں کے بڑے بزرگوں پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ کیا ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے لخت جگر کو بیہودگیوںسے باز رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنی قوم کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے پوری قوم  بدنام ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بچوں پر ان کا کنڑول نہیں ہوتا ،  سچ تو  یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یہ سب جانتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی کمائی  پر نہیں بلکہ ’جیب خرچ ‘کے بل بوتے پر یہ خرمستیاں کرتے ہیں۔ اسلئے تمام تر جواب دہی والدین پر ہی عائد ہوتی ہے۔
    ان شرپسندوں پر قابو پانے کیلئے محلے کے بڑے بزرگوںکو بھی  اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔  یہ کہہ کر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ وہ اپنے باپ کی بات نہیں سنتے تو ہماری کیا سنیںگے؟ اس طرح کی حرکتیں کون لوگ کرتے ہیں، محلے کے افراد ان سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی بدمعاشیوں سے صرف ان  بچوں کی شبیہ خراب نہیں ہوتی بلکہ وہ محلہ بھی بدنام ہوتا ہے اوراخیر میں پوری قوم پر تان ٹوٹتی ہے کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ان کے والدین پر انہیں دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو قابو میں رکھیں۔
    مسلمانوں کی اپنی علاحدہ شناخت ہر زمانے میں رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم  اچھے کردار کیلئے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن آج برے کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ دن گئے جب ہماری  پہچان کاروبار میں ایمانداری،لین دین میںپاسداری، دیانتداری، اخلاقیات کا پاس رکھنے والے،والدین کی خدمت کرنیوالے، بڑے بزرگوں کی عزت کرنیوالے، صاف صفائی رکھنے والے، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کرنیوالے، عبادت گزار اور  ہر کسی کا لحاظ کرنیوالے افراد کی شکل میں ہوتی تھی۔افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ افسوس یہ کہ ہم اپنی اس   خراب شبیہ کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں؟

No comments:

Post a Comment