Wednesday 17 June 2015

Pani bachaaiye
پانی بچائیے!

انسانی زندگی کیلئے پانی ایک لازمی جز ہے۔ہم سب کو پانی کی قلت کا زیادہ سامنا نہیں ہے، شاید اسی لئے اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں ہے لیکن  وطن عزیز ہی کے بعض حصوں میں پانی کا شدیدبحران  ہے، ایک ایک بوند پانی کیلئے لوگ ترستے ہیں۔  پینے کیلئے پانی حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتاہے۔ بعض جگہوں پر اس کیلئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اسی ملک کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی پانی میسر نہیں ہے۔
    ہم ممبئی اور اطراف کے شہری بھی اپریل اور مئی کے مہینوں میں  پانی کی سپلائی میں کٹوتی سے پریشانی اٹھاتےہیں ۔جون کے مہینے میں  بارش میں ذر ا تاخیر ہوئی تو ہاہاکار مچنے لگتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی    اس طرح کی صورتحال سامنے آئی تھی ، ایسا کہا جانے لگا تھا کہ اگر دو ہفتے مزید بارش نہ ہوئی تو پانی کا ذخیرہ ختم ہوجائے گا۔ ذخیرہ ختم ہونے کا مطلب ممبئی اور مضافات کے ۲؍ کروڑ سے زائد شہریوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا کبھی نہ ہو اور  ماضی قریب میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں لیکن اس پر غور ضرور کیا جانا چاہئے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟   پا نی کے بغیرممبئی اور اہل ممبئی کا کیاہوگا؟
     اس پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے پڑرہی ہے کہ ان حالات میں جبکہ شہر اور مضافات میں ایک جانب جہاں پانی کی کٹوتی کا آغاز ہوچکا ہے اوران خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر جون کے آغاز ہی میں بارش نہیں ہوئی تو شہریوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،  وہیں دوسری جانب بہت ساری جگہوں پر پانی کا بیجا استعمال ہورہا ہے بلکہ بعض مقامات پر بلاسبب پانی ضائع کیا جارہا ہے۔
     ہم  چالیوں میںاکثر دیکھتے ہیں کہ خواتین کپڑا دھونے بیٹھتی ہیں تو نل کھلا ہی چھوڑ دیتی ہیں۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی قطعی پروا نہیں  ہے کہ پانی ضائع ہورہا ہے۔ انہیں کپڑے دھونے میں ایک گھنٹے لگیں یا دو گھنٹے، نل یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ خواتین کا گروپ ہو تو پھرخدا خیر کرے، دو گھنٹے کا کام تین گھنٹے میں بھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی جو کام ۱۵؍ سے ۲۰؍ لیٹر میں ہوسکتا تھا، اس کیلئے ۸۰؍ سے ۱۰۰؍ لیٹر پانی ضائع کیا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ کہ اس پر افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا بلکہ اس موضوع پر سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔
    ویسے نلوں کو کھلا چھوڑ کر کپڑے دھونےوالی خواتین کبھی کبھار  تنقیدوں کا نشانہ بھی بنتی رہی ہیں لیکن بڑے گھروں میں رہنےوالے اُن ’سیٹھوں‘ کو کوئی کچھ نہیں کہتا جن کی یہ سوچ رہتی ہے کہ پانی کا سالانہ بل ادا کرنے کے بعد ہم جتنا چاہیں پانی خرچ کریں۔ ہمارے سماج میں ایسی سوچ رکھنےوالوں کی کثرت  ہے اور یہ سوچ بلا سبب کہیں زیادہ پانی خرچ کرواتی  ہے ۔

No comments:

Post a Comment